کتاب: محدث شمارہ 291 - صفحہ 126
”اگرچہ فوری طور پر آبادی میں اضافہ کا نتیجہ کم فی کس شرح آمدنی کی صورت میں ظاہر ہونا ایک معلوم حقیقت ہے۔ لیکن پیداواری کا رکنوں کی زیادہ بڑی تعداد دور رس اثر کے طور پر شرحِ آمدنی کو تیز ی سے بڑھا بھی سکتی ہے۔ یہ دلیل بھی دی جاسکتی ہے، بالخصوص مغرب میں کہ بعض ممالک کو اپنی موجودہ اقتصادی ترقی کی رفتار کا ساتھ دینے کے لیے زیادھ تیز اور اونچی شرح آبادی کی ضرورت ہے۔ کا م کرنیوالی افرادی قوت میں تیز اضافے کا لازمی نتیجہ بے روزگاری اور غربت نہیں ہو ا کرتا۔ اگر سرمایہ کاری کا فی ہو رہی ہو تو وسعت پذیر معیشت نہ صرف اضافی مزدور قوت کو کھپا سکتی ہے بلکہ ہو سکتا ہے کہ اسی اضافی قوت پر اس کا انحصار ہو۔“[1] پال کنیڈی(Paul Kennedy)اپنی کتاب میں آبادی میں اضافے کے سیاسی مضمرات کا تجزیہ کرتے ہوئے واضح کر تا ہے کہ ”ماضی اور مستقبل کے عالمی سیاسی مسائل اور ان کے حل میں آبادی کی بڑھتی ہوئی شرح کا بنیادی کردار ہے۔ اس کے خیال میں جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز کی پالیسی ترک کرنے کے فیصلے میں بھی آبادی ہی کا اثر تھا کہ سفید آبادی جو کبھی ملکی آبادی کا پانچواں حصہ ہوا کرتی تھی، مسلسل کم ہوتے ہوئے 1980ء کی دھائی کی ابتدا میں ساتویں حصہ تک رہ گئی تھی اور اس کے خیال میں 2020ء تک یہ سفید آبادی، ملکی آبادی کا گیارہواں حصہ رہ جائے گئی۔“[2] ایک اور مغربی تجزیہ نگار چیمبرلینChamberlain) )مالتھس کے نظریہٴ آبادی کاجائزہ لیتے ہوئے نتیجہ اخذ کر تا ہے کہ ”آبادی اور خاص طور پر نوجوان آبادی، تبدیلی اور انقلاب کی طاقت اور دباؤ کی قوت ہوتی ہے اور مستقبل میں عالمی تبدیلیوں کا باعث آبادی کی ہی قوت ہوگی۔“[3] فرانس کے قومی مرکز برائے مطالعہ آبادی کے سربراہ ژاں كلاڈ چيسنائس (Jean Claude Chesnais) نے بھی 1990ء میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں ”اگلی چند دہائیوں میں دنیا کے سیاسی جغرافیے کی تبدیلی کا سبب اور اقوام کی طاقت کا مظہرزیادہ شرحِ آبادی کو قرار دیا ہے۔ اس کے خیال میں بڑی طاقتیں اپنی کم شرح آبادی کے نتیجے میں زوال کا شکار ہو جائیں گی۔“[4] امریکی ایجنسی سی آئی اے(CIA) کی 1977ء اور 1995ء کی رپورٹس میں بھی مستقبل کے