کتاب: محدث شمارہ 291 - صفحہ 125
ایک اور مغربی تجزیہ نگار پا ل کینیڈی (Paul Kennedy)دنیا کی آبادی کے ایک معاشی سروے کا حوالہ دیتے ہوئے تحریر کر تا ہے کہ ”یہ یورپ کا صنعتی انقلاب تھا جس نے اس کے پہلو بہ پہلو آبادی کے عظیم اضافہ کو سہارا دیے رکھا اور رسل ورسائل اور فوجی اسلحہ کی ترقی یافتہ شکل پیدا کی اور اس طرح براعظم (یورپ) کو باقی دنیا پر ہلہ بولنے پر اکسایا۔ 1846ء اور 1890 ء کے درمیان یورپ سے نقل مکانی کرنے والوں کی اوسط سالانہ تعداد 377000 تھی۔ لیکن 1891ء اور 1910ء کے عرصہ میں یہ اوسط تعداد 911000 سالانہ تک جا پہنچی۔ درحقیقت 1846ء سے 1930ء تک کے عرصے میں پانچ کروڑ سے زیادہ یورپی نئی زندگی کی تلاش میں سمندر پار گئے۔ چونکہ خود یورپ کے اندر بھی اس عرصہ میں آبادی بڑھ رہی تھی، اس لئے دنیا میں اس کی آبادی کا تناسب بتدریج بڑھتا گیا۔ ایک اندازے کے مطابق قفقازی آبادی 1800ء میں نوعِ انسانی کا 22فی صد تھی اور 1930ء میں5 3 فی صد۔ یہ اس منظر کی وہ آبادیاتی بنیاد تھی جسے بعد ازاں ’مغربیت کا عالمی انقلاب‘ کا نام ملنا تھا۔ قطع نظر اس بات کے کہ باقی دنیا کو یہ بات پسند تھی یا نہ تھی، وھ مجبور تھی کہ مغربی انسان کی توسیع، اس کی پالیسیوں، تصورات اور اقتصادیات کو قبول کیا جائے۔ ان میں سے بہت سی آبادیاں تو یورپی آباد کاروں (immigrants) کے براہ راست سیاسی کنٹرول میں آگئیں۔“[1] گویا یورپ اور امریکہ کی صنعتی اور مادّی ترقی کا سب سے بڑا سبب آبادی اور افرادی قوت میں اضافہ ہے۔ جو کہ ماہرین معاشیات کے نزدیک اہم پیداواری عامل اور انسانی ترقی کے لیے لازم ہے۔ عددی غلبہ و قوت کو مادّی ترقی اورصنعتی طاقت کا اہم معاشی عامل قرار دیتے ہوئے ایک اور مغربی مفکر یوں تجزیہ پیش کرتا ہے کہ ”یہ حقیقت، جسے ’آبادیاتی مرحلہ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، ایک قوم کی طاقت کو نمایاں طور پر متاثر کرتی ہے۔صنعتی پیش رفت آبادی میں اضافے کا سبب بنتی ہے اور یہ زیادہ آبادی مزید صنعتی پھیلاؤ کا ذریعہ بن سکتی ہے۔“[2] عالمی بنک(World Bank) کی 1990ء کی ’ڈویلپمنٹ رپورٹ‘ میں بھی آبادی میں اضافہ کو اقتصادی ترقی کے لئے ضروری قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ