کتاب: محدث شمارہ 291 - صفحہ 123
اورایسی سرگرمیوں کی تحدید بھی کی گئی ہے جو حتمی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ کا باعث ہوں، تاکہ مقصد ِانسانی کا حصول اور منزلِ حقیقی تک رسائی ممکن ہو سکے۔اس طرح دونوں زندگیوں کے امتزاج پر مشتمل تصورِ فلاح کی بنا پر انسانی طرزِ عمل اور جدوجہد میں ایسا فطری توازن اور اعتدال پیدا ہو جاتا ہے جس میں کسی افراط و تفریط کی گنجائش نہیں رہتی۔ لیکن اگر انسانی زندگی اور معاشی جدو جہد سے حیاتِ اُخروی کا عنصر خارج کر دیا جائے تو اس توازن و اعتدال میں ایسا بگاڑ پیدا ہوتا ہے کہ معاشی مفادات اور مادّی وسائل کے اعتبار سے بلندیوں کو چھو لینے کے باوجود حقیقی فلاح و ترقی سے محرومی انسان کا مقدر بن سکتی ہے۔ قرآن میں اسی حقیقت کی نشاندہی کر تے ہوئے سورۂ آلِ عمران کی آیت نمبر 14 میں مادّی سازو سامان اور وسائل و سہولیات کی ایک لمبی فہرست کا تذکرہ کر کے ان کے فوائد و جواز کے باوجود اصل کامیابی کے مقابلے میں انہیں کمتر قرار دیا گیا۔ اور پھر فرمایا : ﴿ قُلْ أَؤُنَبِّئُكُمْ بِخَيْْرٍ مِّن ذَلِكُمْ﴾[1] ”آپ کہہ دیجیے ! کیا میں تمہیں اس سے بہت ہی بہتر چیز بتاؤں ؟“ ان جائز دنیوی نعمتوں اور مادّی ترقی کی مختلف جہات کے تذکرے میں البنين یعنی اولاد و احفاد کو مادّی ترقی کی ایک علامت کے طور پر بیان کرتے ہوئے اسے انسان کو فطری طور پر مرغوب مادّی اشیاے وسائل میں سے ایک قرار دیا گیا ہے۔[2] بلکہ سونے چاندی کے ڈھیروں، بھرئے ہوئے خزانوں اور دیگر مادّی مرغوبات پر خواتین واولاد کا ترجیحا ًتذکرہ اس بات کا ثبوت ہے کہ عورتیں اور بچے (یعنی آبادی ) حیاتِ دنیوی کی (مادّی) ترقی کا ایک اہم مظہر ہیں۔ جبکہ رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق حیاتِ اُخروی میں بھی انسان کے اعمال منقطع ہو جانے کے باوجود جو تین چیزیں انسان (کو ترقی اور عروج کی منزل تک لے جانے) کے لئے فائدہ پہنچاتی رہتی ہیں ،نیک اولاد و احفادان میں سے ایک ہیں۔[3] گویا اسلام کے دو حیاتی تصورِ ترقی و فلاح میں اولاد و آبادی ، نہ صرف یہ کہ ترقی کے مظاہر میں سے ایک ہے، بلکہ حصولِ منزل کا ایک اہم ذریعہ بھی ہے۔