کتاب: محدث شمارہ 291 - صفحہ 121
ان کے اس جواب سے حیران ہوکر صحافی نے پوچھا کہ آپ تو وہی بات کررہے ہیں جو بش اور ٹونی بلیر کررہے ہیں؟ اس پر غامدی صاحب نے کہاکہ
”میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کررہا ہوں اور مجھے بہت خوشی ہے کہ آج ان کی بات دوسرے لوگوں نے بھی شروع کردی ہے۔“
٭ جاوید غامدی کے بقول :” میرے نزدیک یہ دہشت گردی اور امن کی جنگ ہے۔“
اس کے بعد بھی غامدی صاحب کے بارے میں اخبارات میں کئی مضامین شائع ہوتے رہے، جن میں بطورِ خاص ’امریکہ کے وکیل‘ کے عنوان سے 7 تا 9 نومبر2001ء کو روزنامہ پاکستان میں ہی 3 قسطوں میں شائع ہونے والا مضمون کافی چشم کشا ہے۔ روزنامہ ’انصاف‘ میں ’جاوید غامدی کے افکارِ تازہ‘ کے عنوان سے بھی ایک مضمون متعدد قسطوں میں شائع ہوا اور بعد میں بھی یہ سلسلہ جاری ہی رہا۔ کیا یہ بات غور طلب نہیں کہ اشراق میں کشمیر اور فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کی حمایت میں کبھی کوئی قابل ذکر مضمون جگہ نہیں پاسکا۔’ امریکہ کے وکیل ‘ نامی مضمون کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
”جاوید غامدی کے سینے میں وہ دل نہیں ہے جو مسلمانوں کے دکھ کومحسوس کرسکے۔ پورے انٹرویو میں امریکہ کی مذمت تو کجا، مسلمانوں سے ہمدردی کا بھی ایک لفظ موجود نہیں ہے۔ “
ماضی قریب کے ہفت روزہ ’زندگی‘ میں جناب جاوید غامدی کا ایک انٹرویو اجمل نیازی نے کیا تھا جو 1997ء میں شائع ہوا، اس کا مطالعہ بھی قارئین پر ان کی شخصیت کے بہت سے اَسرار کھول سکتا ہے۔ حلقہ اشراق کبھی اپنے کردار کے بارے میں غور کی زحمت گوارا کرے تو اسے ’زبانِ خلق کو نقارۂ خدا‘ سمجھتے ہوئے ضرور سوچنا چاہئے!!
’امریکہ کی وکالت ، تجدد پسندی اور مسلماتِ اسلامیہ سے انحراف‘ حلقہ اشراق کا ایسا مرض ہے جو مزید علامتوں اور دلائل کا محتاج نہیں۔ مضمون کی طوالت کے خوف سے اس تذکرے کو یہیں پر سمیٹا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اسلام کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!