کتاب: محدث شمارہ 291 - صفحہ 120
طرف توجہ دلائی۔ یاد رہے کہ اس اجتماع کے شرکا نے ’محدث‘ کے امامت ِزن پر خصوصی شمارے کو تمام مکاتب ِفکر کی طرف سے تازہ اشراقی انحراف کا مشترکہ دفاع قرار دیتے ہوئے خراجِ تحسین پیش کیا اور اس کاوش کو خوب سراہا۔ مولانا عبد الرء وف ملک نے اس مجلس میں ’روشن خیالی اور اعتدال پسندی‘ پر صدر پرویز مشرف کی ایک مجوزہ کانفرنس کے بارے میں شرکا کو آگاہ کیا کہ اس مجلس میں جناب جاوید غامدی روشن خیالی کے سرکاری موقف کی حمایت پر تقریر کریں گے۔ ایک مقرر جو ایک دن قبل ہی اسلام آباد سے اس اجتماع کے لئے تشریف لائے تھے، اُنہوں نے یہ بتا کر تمام شرکا کو حیران کردیا کہ یہ مجلس جس کا مولانا عبدالرؤف ملک تذکرہ کررہے ہیں، منعقد ہوچکی ہے اور جنا ب خورشید ندیم اس مجلس میں شریک تھے اور اُنہوں نے اس مجلس کی روداد مجھ سے خود بیان کی ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ بطورِ خاص اس مجلس میں چودھری شجاعت حسین کو بھی شریک کیا گیا تھا کیونکہ وہ صدر پرویز مشرف کے لبرل خیالات کی حمایت میں پس وپیش کرتے ہیں۔ ’اشراق‘ کے کردار کے بارے میں یہ فکر مندی نئی نہیں۔ ماضی میں بھی اس کا یہ رویہ دین سے وابستہ لوگوں کے لئے شدید ذ ہنی اذیت کا باعث رہا ہے۔ اگر کسی کو جاوید غامدی کے ’افکارِ عالیہ‘ کے بارے میں ذرا سا بھی شک ہو تو وہ نائن الیون کے کچھ ہی دنوں بعد امریکہ کی ہم نوائی میں دیے جانے والے ان کے انٹرویو کا لفظ بلفظ مطالعہ کر لے، یہ انٹرویو 28/ اکتوبر2001ء کے روزنامہ پاکستان کی ’زینت‘ بنا۔ افغان قوم پر امریکہ کی ہولناک بمباری کے دوران یہ انٹرویو مسلم اُمہ کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ چند قابل ذکر جملے ملاحظہ ہوں : ٭ امریکہ کی طرف سے افغانستان پر حملہ جائز ہے، مگر بھارتی افواج کے خلاف مجاہدین کے حملے ناجائز ہیں اور ’دہشت گردی‘ کی تعریف میں آتے ہیں۔ ٭ سوال: ہمارے ہاں تو امریکہ کے افغانستان پر حملے کو دہشت گردی قرار دیا جاتا ہے۔ تو اُنہوں نے نہایت بے حسی سے جواب دیاکہ ”آپ اسے دہشت گردی نہیں کہہ سکتے۔“ ٭ جناب غامدی نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: ”جس اسلام کو میں جانتا ہوں ، اس میں جہادی کلچر کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔“