کتاب: محدث شمارہ 291 - صفحہ 119
عافیت سمجھی ہے۔ اشراق کا اس پیرا گراف کو دانستہ حذف کرنا جو اس سارے تذکرے کا حاصل تھا، اپنے اندر خاص معنویت رکھتا ہے۔ وہ پیرا گراف حسب ِذیل ہے :
”بظاہر ایسی سرگرمیاں کسی تنظیم کے لئے شرمندگی کی بجائے باعث ِافتخار ہونی چاہئیں لیکن جب حلقہ اشراق کے پیغام اور ان کی تحقیق ات کا مرکزی نقطہ تلاش کیا جاتاہے تو وہ تمام تر ایسے ایشوز ہیں جو عالمی استعمار کے خلافِ اسلام ایجنڈے کی تبلیغ کرتے ہیں۔ اشراق کی تحقیق کی تان بھی انہی کی ہم نوائی پر آکر ٹوٹتی ہے۔
اب یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ عام اسلامی تحریکوں کے برعکس جناب غامدی اسامہ بن لادن کو دہشت گرد، طالبان کو ظالم اور امریکی اقدامات کو برحق سمجھتے ہیں۔ان کی نظر میں فلسطینی عوام کا کردار بھی دہشت گردانہ ہے ۔جہاد کو وہ منسوخ تو نہیں کہتے لیکن جہاد کے لئے جن شرائط کو وہ پیش کرتے ہیں، اس کے بعد عملاً جہاد کا حکم منسوخ ہوجاتاہے۔ عورت کا پردہ اور حجاب، تصویر ومجسمہ سازی کو جائز قرار دینا، رقص و سرود کا جواز بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وصحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر رقص وسرود دیکھنے کا الزام عائد کرنا، سیاسی طور پر بیت المقدس کو یہودیوں کے حوالے کردینا وغیرہ ان کے ایسے ہی علمی وتحقیقی کارنامے ہیں۔“ (محدث: جون2005ء، ص12)
آج بھی حلقہ اشراق کے بظاہرخوشنما اُسلوب پر جانے کی بجائے ان کے مقصد اور کارناموں کا جائزہ لیا جانا چاہئے کیونکہ درخت کو ہمیشہ اس کے پھل سے پہچانا جاتا ہے۔ اس درخت کی خوشنمائی پر جانے کی بجائے اس کے نتائج فکر کو اسلام کی میزان میں تولیں تو ان کی ٹھیک ٹھیک تصویر کا بخوبی علم ہوجائے گا۔
حلقہ اشراق کا اسلام کے نام پر یہ کرداراس وقت اکثر دینی حلقوں کے لئے شدید تشویش کا باعث بنا ہوا ہے۔ اس سلسلے میں مختلف مکاتب ِفکر کے ایک حالیہ اجتماع کا حوالہ دینا مناسب ہوگا۔ یہ اجتماع مولانا عبد الروف ملک صدر ’متحدہ علما کونسل‘ نے حلقہ ’اشراق‘ کے ایسے ہی ناپسندیدہ کارناموں کے بارے میں اہل علم کو متوجہ کرنے کے لئے گڑھی شاہو، لاہور میں 10جولائی 2005ء کو طلب کیاجس میں لاہور کے منتخب اہل علم اور بعض اداروں کے منتظمین بھی شریک تھے۔ یہاں خطاب کرتے ہوئے مختلف مقررین نے ’اشراق‘ کے اس تجدد پسندانہ کردار کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور ان کے بارے میں علماے کرام کو اپنی ذمہ داری ادا کرنے کی