کتاب: محدث شمارہ 291 - صفحہ 118
اہل ’اشراق‘ اگر اپنے ’نقطہ نظر‘ کے دعویٰ میں سچے ہیں کہ یہاں ایسے مضامین شائع کئے جاتے ہیں جن سے ان کا کسی بھی درجے میں اتفاق ضروری نہیں تو پھر وہ ہمارا زیر نظر مضمون بھی اسی کالم میں لفظ بلفظ شائع کریں تاکہ ان کے موقف کی حقیقت کھل کر سامنے آسکے۔ ورنہ آئندہ اُنہیں ایسے خود ساختہ استحقاق کو استعمال کرتے ہوئے محتاط رہنا ہوگا۔
(4) ’اشراق‘ نے محدث میں شائع شدہ بعض دعووں کو ’موضوع‘ قرار دیا ہے۔ اشراق کے اداریہ نگار نے ایک خالص علمی بحث کو شخصی واقعات میں اُلجھانے اور اصل موضوع کو نظرانداز کرانے کی کوشش کی ہے۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ اشراق میں اس موضوع کے حوالے سے اُٹھائے گئے سوالات کے شافی جواب پر محنت کی جاتی لیکن اس کے بجائے موضوع کو اپنے مرکز و محور سے ہٹانے کے لئے یہ ڈھنگ اپنایا گیا۔ سنجیدہ اور علمی اُسلوب کا تقاضا تو یہ ہے کہ شخصیات اور واقعات کو موضوعِ بحث بنانے کی بجائے نظریات پرگفتگو کی جائے کیونکہ نظریات ہی وہ حرکی خاصیت رکھتے ہیں جن سے مستقل اثر لیا جاتا ہے۔ شخصیات کے برعکس نظریات ہی دائمی ہوتے ہیں !!
جناب غامدی کی سرکاری ایوانوں سے قربت کی داستانیں ہر باخبر شخص کے علم میں ہیں، دلائل سے تو ان باتوں کو ثابت کیا جاتا ہے جن کو قبول کرنے میں کسی کو کوئی شک وشبہ ہو۔ محدث میں حلقہ اشراق کے بارے میں جو حقائق پیش کئے گئے ہیں، ان کی اسناد المَورد سے مستفید ہونے والوں تک متصل پھیلی ہوئی ہیں۔ ان ’اسناد‘ کا تذکرہ کیا جائے تو اس میں بہت سے ذمہ دار لوگوں کے نام آنے کا اندیشہ ہے جو یوں کھلے عام موضوعِ بحث بننا پسند نہیں کرتے اور ہم بھی ایسے استفادہ کرنے والوں کا سلسلہ منقطع نہیں کرنا چاہتے۔ یہ بھی یاد رہے کہ جس فن حدیث پر طنز کیا گیا ہے، اس میں تو عادل راوی کی مستند بات پر یقین کیا جاتا ہے۔ پھر بھی اگر کسی کو اطمینان نہ ہو تو وہ بذاتِ خود ملاقات کرکے ایسے واقعات کی سند معلوم کرسکتا ہے جیسا کہ راقم کے جاننے والے بعض احباب نے کیا۔
جہاں تک ’محدث‘کا تعلق ہے تواس میں ایسے واقعات کو اصل دلیل کی بجائے حلقہ اشراق کے مرض کی ایک علامت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اشراق نے اصل موضوع سے توجہ ہٹانے کے لئے دو طویل عبارتوں کو شائع کیا ہے لیکن اصل وجہ استدلال کو شائع نہ کرنے میں ہی