کتاب: محدث شمارہ 291 - صفحہ 117
نے اس امر کی کبھی ضرورت محسوس نہیں کی۔ جہاں تک امامت ِزن کے بارے میں شائع شدہ مضمون کا تعلق ہے تو جب اس پر کڑی تنقید ہوئی تو ’اشراق‘ نے اس کو نقطہ نظر کے کالم کا استحقاق قرار دے ڈالا۔ رسائل وجرائد کے مسلمات سے ہمیں بھی کچھ آگاہی ہے اور اس بارے میں مغالطہ آرائی سے بھی ہم ہوشیار ہیں۔ کسی بھی جریدے میں کسی مضمون کی اشاعت کا یہ لازمی مطلب لیا جاتا ہے کہ اس مضمون کے مندرجات سے ادارہ مجلہ کا کسی نہ کسی حد تک اتفاق ہوتا ہے، وگرنہ ایسے قابل اعتراض مضمون کی اشاعت پر حکومت متعلقہ جریدہ کو کیوں موردِ الزام ٹھہراتی اور اس کی کاپیاں ضبط کرنے کے احکامات صادر کرتی ہے … ؟ یوں بھی اگر حکومت گرفت نہ کرے تو ہر مسلمان اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی ذمہ داری پر جواب دہ ہے۔ قرآن کریم کی رو سے ”جو لوگ بری باتوں کو شائع کرتے ہیں ، روزِ قیامت ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔“ (النور:19) اس لحاظ سے نقطہ نظر کے کالم میں شائع ہونے والے مضامین سے اشراق کی بالکلیہ براء ت کا اظہار، میدانِ صحافت کا ایسا لطیفہ ہے، جسے کوئی بھی ذی ہوش تسلیم نہیں کرسکتا۔ یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ مضمون کے مندرجات سے ادارہ کا کلی اتفاق ضروری نہیں، لیکن اس کے بڑے حصے اور مرکزی موقف سے اس کو شائع کرنے والا جریدہ بریٴ الذمہ نہیں ہوسکتا۔ ’اشراق‘ کو اس گنجائش سے استفادہ کی ضرورت اس لئے پیش آئی ہے کہ اگر اس بات کو تسلیم کرلیا جائے تو آئندھ بھی ایسے ہی مختلف متنازعہ موضوعات پر عوام کی رائے سازی کا موقع اُنہیں میسر رہتا ہے۔ مسلماتِ اسلامیہ سے انحراف حلقہ اشراق کی رِیت رہی ہے، اور اس کے لئے ایسے چور دروازے کھلے رکھنا ان کی مجبوری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگست2005ء کے ’اشراق‘ میں پروفیسر خورشید عالم کا ہی ’چہرے کے پردے کے عدمِ وجوب اور مردو زن کے اختلاط‘ کے موضوع پر ایک اور مضمون ’نقطہ نظر‘ کے کالم میں شائع کیا گیا ہے۔ ایسے تجدد پسند نظریات کی اشاعت کا مقصد ’نقطہ نظر‘ کے کالم کے ذریعے ہی پورا کیا جا سکتا ہے۔ عوام میں ایسے منحرف خیالات کی لگاتار نشرواشاعت کے بعد ان کے ردّعمل کے پیش نظر حلقہ ’اشراق‘ اپنے موقف اور حکمت ِعملی میں موزوں تبدیلی کرتا رہتا ہے۔