کتاب: محدث شمارہ 291 - صفحہ 116
یہ اس روایت کے یقینا ًمنافی ہے جو مسلمانوں میں ہمیشہ سے قائم رہی ہے۔ اور وہ اس کے حق میں ہیں کہ یہ روایت قائم ر ہنی چاہئے۔“ (’اشراق‘ : جولائی 2005ء، ص 2)
جناب غامدی کا یہ موقف ’مصلحت آمیز ابہام‘ کا شکار ہے۔وہ ایک طرف تو مسلمہ دینی روایات کے مخالف ایک موقف کو اپنانے کی ہمت نہیں کرپارہے اور دوسری طرف لبرل اور آزاد خیال طبقہ کی حمایت سے بھی محروم نہیں ہونا چاہتے۔
جناب غامدی سے بصد ادب التماس ہے کہ اگر وہ اپنے موقف کے بارے میں اس قدر ہی پراعتماد ہیں تو اُنہیں جرأت کے ساتھ اس کو اپنانا چاہئے۔ حق بالکل واضح ہوتا ہے، اس میں ’یہ بھی ٹھیک ہے اور وہ بھی غلط نہیں‘ کی بجائے دلیل وبرہان کی قوت سے واضح موقف کا اظہار کیا جاتا ہے۔ امامت ِزن کے مسئلے پر ان کے دو ٹوک موقف کی تشنگی ابھی تک موجود ہے !
(2) اِشراق کے اداریے میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ اشراق میں امامت ِزن کے مسئلے پر دو مضامین موجود تھے، ایک اشراق کے ریسرچ فیلو جناب ساجد حمید کا، جس میں امامت ِزن کے ناجائز ہونے کا موقف پیش کیا گیا تھا اور دوسرا ’اشراق‘ کے معاصر ادارے ’قرآن کالج‘ کے پروفیسر خورشید عالم کا، جسے اشراق کی زینت بنایا گیا ہے۔
کیا وجہ ہے کہ ادارہ کے ریسرچ فیلو کی تحقیق کو نظر انداز کرکے اس موقف کو شائع کرنے میں دلچسپی لی گئی جس میں ساری اُمت ِمسلمہ سے بالکل ایک الگ موقف پیش کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں اور کچھ نہیں تو ادارۂ اشراق کا ’حسن انتخاب‘ ضرور کار فرما ہے اور یہ حسن انتخاب ’اشراقی مقاصد‘کا مظہرہے۔ کیا یہ ’حسن انتخاب‘ ادارۂ اشراق کی موقف کی صاف چغلی نہیں کھا رہا ؟ چاہے اس سے اشراق والے لاکھ اظہارِ براء ت کریں…!
(3) اشراق کے اداریے میں اس بات کو بڑے شد ومد سے اُچھالا گیا کہ ’نقطہ نظر‘ کے کالم میں شائع ہونے والی آرا سے ادارے کا اتفاق ضروری نہیں۔اوّل تو اس امر کا دعویٰ کرنے کا استحقاق وہ رسائل وجرائد رکھتے ہیں جو ہمارے ممدوح مجلے’محدث‘ کی طرح اپنے رسالے میں نمایاں جگہ پر اس امر کا اظہار ضروری خیال کرتے ہیں کہ
ادارے کا مقالہ نگار کی آرا سے متفق ہونا ضروری نہیں!
اشراق ایک مخصوص طرزِفکر کا نمائندہ اور اس کی نشرواشاعت کا باقاعدہ ترجمان ہے، اس