کتاب: محدث شمارہ 291 - صفحہ 115
”تبصرہ نگار کی یہ بات کہ ”اس حدیث کو امام احمد نے روایت نہیں کیا“ بالکل غلط ہے، کتاب الروض المربع (ج3/ص448) کے حاشیہ پر ہے کہ اس حدیث کو امام احمد، ابوداود اور ترمذی نے تین طریقوں سے روایت کیا ہے۔“ (حکمت ِقرآن: ص 60)
جبکہ امرواقعہ یہی ہے کہ حدیث کے مذکورہ بالا الفاظ بعینہ مسند احمد میں کہیں مذکور نہیں۔ البتہ 9کتب ِحدیث میں اس مفہوم کی 18 /احادیث اور اس سے ملتے جلتے الفاظ پائے جاتے ہیں جن میں صحیح مسلم، سنن ابوداود ، سنن ترمذی، سنن ابن ماجہ ، مسند احمد اور سنن دارمی شامل ہیں۔ یہاں پروفیسر موصوف کا ثانوی مراجع پر اعتماد اور اصرار کرکے تبصرہ نگار کو ’بالکل غلط‘ کی وعید سنانا بلاو جہ ہے۔
جناب خورشید عالم کو جاوید احمد غامدی سے وہی نسبت ہے جو رفیع اللہ شہاب کو آنجھانی غلام احمد پرویز سے تھی اور دونوں کا اُسلوبِ استدلال بھی تقریباً یکساں ہے کہ کتب ِفقہ سے نادر مسائل کے اختلافات اُچھال کر انحراف کی راہیں وا کی جائیں، خواہ اس کے لئے اصل عبارت یا اس کے ترجمے کے ساتھ کچھ بھی کرنا پڑے۔
ادارۂ اشراق کے مغالطات پر ایک نظر
جولائی 2005ء کے ’اشراق‘کی ادارتی تحریر میں یہ امر خوش آئند ہے کہ ادارۂ اشراق کو پروفیسر خورشید عالم کے مضمون میں بیان کردہ موقف سے اتفاق نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اسے ’نقطہ نظر‘ کے کالم میں جگہ دے کر اپنی ادارتی ذمہ داری سے بری ہونے کا بھی دعویٰ کرتے ہیں۔ یوں تو ادارۂ اشراق کا موقف پروفیسر خورشید عالم سے مختلف نہیں جس کے دلائل آگے پیش کئے جا رہے ہیں لیکن بظاہر ان کا اِس موقف کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار ہی حق کی حقانیت کی ایک روشن دلیل ہے !!
(1) ادارہ اشراق نے اپنے پہلے پیرا گراف میں جاوید احمد غامدی کا امامت ِزن کے بارے میں تین سطری موقف پیش کیا ہے، اتنے مختصر موقف میں بھی ’داخلی تضاد‘ پایا جاتا ہے۔ یہ موقف آپ بھی ملاحظہ فرما لیں :
” اسے حرام تو قرار نہیں دیا جاسکتا، اس لئے کہ قرآن وسنت میں اس کی کوئی صراحت نہیں ہے۔ بلکہ اُمّ ورقہ کی حدیث سے استثنائی حالات میں بظاہر اس کا جواز معلوم ہوتا ہے۔ تاہم