کتاب: محدث شمارہ 291 - صفحہ 114
کا یہ موقف ثابت نہیں ہوتا۔ مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ نے جب ان کا حقیقی موقف ان کی اصل کتاب سے درج کیا اور فقہا کی بات کا سیاق و سباق بھی پیش کیا تو اس کے باوجود پروفیسر صاحب بداية المجتھد پرہی اعتماد کرنے پر مصر ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان فقہا کی اپنی کتب کی موجودگی میں ثانوی مراجع کی طرف توجہ کی ضرورت نہیں۔
دوسری طرف محترم حافظ صلاح الدین یوسف نے کویت سے شائع ہونے والے انسائیکلوپیڈیا الموسوعة الفقہية سے ایک حوالہ درج کیا، اور ساتھ ہی اس امر کا اشارہ بھی دیا کہ ایسے وقیع انسا ئیکلوپیڈیا کی بات کو یوں آسانی سے نظر انداز کرنا درست نہیں بلکہ یہاں جن ایڈیشنوں کا حوالہ دیا گیا ہے، ان کی تصدیق حاصل کرنا ہوگی تو یہی پروفیسرصاحب حافظ صاحب کے اس طرزِ عمل کو جسارت قرار دینے سے نہیں چوکتے۔ محترم حافظ صاحب کی ذکرکردہ یہ عبارت اگر انسا ئیکلوپیڈیا کے محولہ صفحہ (ج6/ص204) پر نہ ہو، تب تو اس کو جسارت قرار دیا جائے لیکن اگر یہ بات وہاں موجود ہے اور کوئی اس کو جھٹلا نہیں سکتا تو پھر اس کو جسارت قرار دینا چہ معنی دارد !
اگر یہی جسارت ہے تو پھر پروفیسر خورشید عالم کا سارا مضمون اسی جسارت پر قائم ہے۔ کیونکہ بدایة المجتھد کے جس موقف کا وہ حوالہ دے رہے ہیں، مصنف کی اصل کتاب میں اس کا کوئی وجود نہیں۔پروفیسر موصوف کے ایسے دلائل حادثہ نہیں بلکہ ان کی روز مرہ عادت ہے، لیکن دوسروں کو وہ ثانوی مراجع سے استفادہ کا حق دینے کے لئے قطعاً تیار نہیں۔
٭ پروفیسر صاحب کی ایسی ہی ایک دلچسپ جسارت ماہنامہ ’حکمت ِقرآن‘ کے اپریل 2005ء میں ان کے شائع شدہ خط میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔ حکمت ِقرآن میں ان کے مضمون ’شوال کے چہ روزے‘ پرتبصرہ کرتے ہوئے ’السندہ‘ کے مدیر مولانا عبدالحی ابڑو نے لکھا ہے :
من صام رمضان شهر بعشرة أشهر وصام ستة أيام بعد الفطروذلك تمام سنة
”اس حدیث کو امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے مسند میں روایت نہیں کیا، جیسے پروفیسرموصوف نے لکھا ہے بلکہ یہ دارمی اور ابن ماجہ میں ہے۔ یہ الفاظ دارمی کے ہوسکتے ہیں، ابن ماجہ کے الفاظ اس سے مختلف ہیں۔“ (حکمت ِقرآن: ص 59)
اس اعتراض کے جواب میں پروفیسر خورشید عالم لکھتے ہیں :