کتاب: محدث شمارہ 291 - صفحہ 113
پڑے۔ اس موضوع پر مزید خامہ فرسائی سے قبل ہمارا اُنہیں مشورہ یہ ہے کہ اپنی سابقہ غلط بیانیوں کی تلافی کرکے علم و تحقیق کے میدان میں آئیں۔ شریعت ِاسلامیہ کی وضاحت بڑی ذمہ داری اور دیانتداری کی متقاضی ہے !!
پروفیسر صاحب نے اپنے جوابی مضمون کے آغاز میں ادارۂ اشراق سے اپنے تعلق کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر اسرار احمد کے ’قرآن کالج‘ میں اپنی کئی برسوں پر محیط تدریس کا بھی حوالہ دیا ہے۔ یہاں قرآن کالج سے 5 مئی 2005ء کو اپنی فراغت کا تذکرہ کرتے ہوئے بھی اُنہوں نے صداقت وامانت کا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ پروفیسر موصوف اس کی وجہ اپنی کبرسنی کو قرار دیتے ہیں جبکہ واقعاتی حقائق یہ ہیں کہ اس فراغت سے عین پانچ روز قبل یکم مئی کو ’اشراق‘ میں ان کا امامت ِ زن پر وہ متنازعہ مضمون شائع ہوچکا تھا جس سے اس ساری بحث نے جنم لیا۔ اس کے ساتھ ہی انہی دنوں ان کا دوسرا ناقابل رشک کارنامہ جس میں اُنہوں نے عورت کے چہرے کے پردے کے عدمِ وجوب اور مردوزن کے اختلاط کے جواز پر دادِ تحقیق دی ہے، بھی تیارہوکر ’اشراق‘ کی زینت بننے کے لئے منتظر تھا۔ یاد رہے کہ ایک نئے انحراف کی بنیاد بننے والا یہ مضمون اگست 2005ء کے اشراق میں پوری تفصیلات کے ساتھ ’نقطہ نظر‘ کے کالم میں شائع ہوچکا ہے، جس کا شافی جواب بھی کسی صاحب ِعلم کی توجہ کا منتظر ہے۔
پروفیسر صاحب نے اپنے جوابی مضمون میں یہ بھی تحریر کیا ہے کہ میں نے ایسے مضامین کو صرف اپنے حلقہ تدریس (قرآن کالج) میں ہی اپنے ساتھی اساتذہ یا طلبہ کو پڑھ کر سنایا تھا۔
پروفیسر موصوف کی اس ’باعزت‘ فراغت کے پس پردہ اِن مضامین کی اشاعت کا کیا کردار ہے، کوئی بھی سمجھ دارمعمولی غور وفکر سے اس نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے۔
(6) پروفیسر خورشید کی شخصی کوتاہیاں اپنی جگہ لیکن علم و تحقیق کے میدان میں جس ’منتخب اخلاقیات‘ پر آپ عمل پیرا ہیں، ا س کے مظاہرآپ کے جوابی مضمون میں بھی موجود ہیں۔
تحقیق کا مسلمہ اُصول ہے کہ کسی بات یا شخصیت کے قول کا حوالہ اس کی اپنی کتاب سے دیا جائے۔ ثانوی مراجع سے نقل کئے جانے والے حوالے تحقیق کے میدان میں معتبر خیال نہیں کئے جاتے۔ پروفیسر موصوفنے اپنے مضمون میں فقہا کے موقف کا تذکرہ کرتے ہوئے جابجا ثانوی مراجع پر اعتماد کیا ہے۔جب کہ ان فقہا کی اپنی تصنیفات بھی موجود ہیں جہاں سے ان