کتاب: محدث شمارہ 291 - صفحہ 112
فقیہ ومحدث نے ان الفاظ کو امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ کے اپنے الفاظ قرار نہیں دیا، لیکن اس دیدہ دلیری کا نتیجہ یہ ہے کہ پروفیسر خورشید عالم نے اپنے جوابی مضمون میں خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ایسے الفاظ کی نسبت کا ارتکاب کر دیاہے، جس کا وجود بھی نہیں ہے۔ پروفیسر صاحب اپنے مضمون میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ درج کرتے ہیں :
”سنن دار قطنی میں ایک جملے کا اضافہ ہے جو حدیث کی کسی کتاب میں مروی نہیں، وہ جملہ ہے: (كانت توٴم)“
(’اشراق‘: جولائی 2005ء، ص 48)
جبکہ یہ الفاظ سنن دار قطنی میں کہیں بھی موجود نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم سے خود ساختہ الفاظ منسوب کرنے کی وعید سے اہل علم بخوبی واقف ہیں۔ میرا خیال یہ ہے کہ پروفیسر صاحب کے قلم سے حدیث نبوی کے حوالہ سے وارد ہونے والا یہ ’جملہ‘ محدثین پر ان کے ایک ناروا الزام کی سزا ہے۔ اگر پروفیسر صاحب اس اضافے پر مصر ہیں تو اُنہیں ان الفاظ کا ثبوت پیش کرنا چاہئے، ورنہ اس بارے اپنی معذرت کو شائع کرنا چاہئے تاکہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ بالا وعیدکے مستحق ہونے سے بچ سکیں۔
(5) پروفیسر خورشید عالم نے اپنے جوابی مضمون کے آغاز میں حضرات علماے کرام کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے بعض طنزیہ جملے تحریر کئے ہیں۔ ان کو محدث کے اُن مقالہ نگاروں سے بھی بڑا شکوہ ہے جنہوں نے ان کے مغالَطوں اور غلط بیانیوں کی نشاندہی کی ہے۔
جہاں تک طنزیہ جملے استعمال کرنے کا تعلق ہے تو یہ پروفیسر صاحب کی مجبوری ہے۔ پیپلز پارٹی سے پرانی وابستگی کے ناطے ان کا یہ لب ولہجہ باعث ِتعجب نہیں۔ ان کے ناقدانہ رویے اور متشددانہ طرزِ عملکی ان کے ساتھ رہنے والے کئی نمازی اکثر شکایت کرتے رہتے ہیں۔ یوں بھی مختلف مضامین میں اپنے ناقدین کے ساتھ ان کا یہ جارحانہ اُسلوب ان کی شناخت بنتا جارہا ہے۔
اُنہیں اپنی کج فہمیوں کی نشاندہی کرنے پر شکوہ کرنے کی بجائے بالخصوص مولانا ارشاد الحق اثری کے اعتراضات کا دلائل کے ساتھ جواب دینا چاہیے تھا۔ جہاں ترجمے میں ان کی ہیرپھیر کی نشاندہی کی گئی ہے، وہاں اس کی وضاحت کرنا چاہئے تھی۔ لیکن ان سے ان کا جواب تو بن نہ پڑا اور اپنی اصلاح پر شکرگزار ہونے کی بجائے وہ اُلٹا نشاندہی کرنے والے پر برس