کتاب: محدث شمارہ 291 - صفحہ 111
دوسرے کی تائید وتکمیل کا باعث ہوتے ہیں۔
دیانتدارانہ تحقیق کا تقاضا یہ ہے کہ پروفیسر موصوف یا تودونوں متون کو صحیح مانیں یا دونوں کو ضعیف تصور کریں۔ ابوداود اور دار قطنی دونوں کی روایات صحیح ماننے کی صورت میں اگر سنن ابوداود سے مردوں کے لئے عورت کی امامت کا احتمال پیدا ہوگا تودار قطنی کی روایتسے اس کے مفہوم کا تعین بھی خود ہی ہوجائے گا، بصورتِ دیگر دونوں متون کو ضعیف سمجھنے سے یہ سوال آغاز سے پیدا ہی نہیں ہوگا۔یہی بات مولانا ارشاد الحق اثری نے ’محدث‘ میں اپنے شائع شدہ مضمون میں کہی ہے :
”جب سنن ابوداود اور مسند احمد وغیرہ میں ولید کی یہ روایت قابل اعتبار ہے تو یہاں بھی اس روایت کا انکار درست نہیں۔“
(محدث، جون 2005ء، ص 37)
(4) حدیث ِنبوی کے بارے میں محدثین کی عظیم الشان خدمات کا اعتراف اہل علم کے ہاں یوں کیا جاتا ہے :
أهل الحديث هم أهل النبي وإن لم يصحبوا نفسه،أنفاسه صحبوا
”حدیث ِنبوی کی خدمت کرنے والے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل وعیال ہی ہیں۔ اگرچہ آپ کے بنفس ِنفیس ہم نشین نہ بن سکے تاہم آپ کے سانسوں (ارشادات) سے ضرور باریاب ہوگئے۔“ ( صفة الصلاة از شیخ البانی: رحمۃ اللہ علیہ ص44)
ان مایہ ناز محدثین میں ایک عظیم امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ بھی ہیں جنہیں مشہور موٴرّخ ومفسرامام طبری رحمۃ اللہ علیہ نے امیر المومنین فی الحدیث کا لقب دیا ہے اور خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے انہیں اپنے وقت کا امام اور نابغہ روزگار ’محدث‘ قرار دیا ہے۔ جو لوگ اللہ کے دین کی خدمت کے لئے دن رات اپنے آپ کو وقف کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلند کرتے اور ان کی عزت کے دفاع کی ذمہ داری خود پوری کرتے ہیں۔
پروفیسر خورشید عالم نے اپنے من گھڑت موقف کے راستے میں حائل ہونے والے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو امام دارقطنی کے اپنی طرف سے اضافہ شدہ الفاظ قرار دے کر اس عظیم محدث کی شان میں نہایت ناروا جسارت کا ارتکاب کیا ہے۔
سنن دار قطنی کی تالیف کو ہزار سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود آج تک کسی امام