کتاب: محدث شمارہ 291 - صفحہ 110
ہونے کے باوجود اگر فن حدیث کی اتنی موٹی سی بات تک ان کا ذہن نہیں پہنچ پایا تو یہ امر باعث ِحیرت ہے۔ اُمید ہے کہ اس وضاحت کے بعد ’محدث‘ کے مقالہ نگاروں کا حدیث اُمّ ورقہ کی صحت و ضعف میں پیش کیا جانے والا اختلاف …جو محض اعتباری ہے،حقیقی نہیں…ان کے خلجان کو دور کر دےگا۔ (3) یہاں اس امر کی نشاندہی بھی ضروری ہے کہ اہل اشراق کے استدلال کا مرکز و محور حدیث ِامّ ورقہ رضی اللہ عنہا ہے جس کے بارے میں ان کے موقف میں داخلی تضاد پایا جاتا ہے۔ان کے موقف کی تمامتر بنیاد چونکہ یہی حدیث ہے، جس میں ایک احتمال پر ہی ان کے استدلال کی ساری عمارت کھڑی ہے کہ یہاں أہل دار(گھر والوں)کا لفظ استعمال ہوا ہے جس میں مرد و زن دونوں شامل ہوسکتے ہیں لہٰذا حضرت امّ ورقہ رضی اللہ عنہا اپنے تمام گھر والوں کی امامت کرایا کرتی تھیں۔ صحاحِ ستہ میں یہ حدیث صرف سنن ابو داود میں مروی ہے، اور اس کی جو سند یہاں بیان ہوئی ہے، بعینہ اسی سند سے سنن دار قطنی میں بھی اس حدیث کی عبارت میں (نساء أهل دارها)کی صراحت آگئی ہے کہ اُمّ ورقہ رضی اللہ عنہا اپنے اہل دار کی عورتوں کی امامت کراتی تھیں۔ اشراق کے محققین پر تعجب ہوتاہے کہ ایک ہی سند سے آنے والی جس حدیث (ابو داود) سے ان کے موہوم احتمال کا شائبہ پیدا ہو رہا ہے، اس کو تو وہ قبول کرتے ہیں لیکن اسی سند سے آنے والی حدیث(دار قطنی) میں اس احتمال کے ختم ہو جانے کی وجہ سے پیچھا چھڑانے کے لئے اس کو ضعیف قرار دینے سے بھی نہیں چوکتے بلکہ اس اضافہ کو غلط طور پر امام دار قطنی کی من گھڑت زیادتی قرار دے رہے ہیں۔ عدل وانصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ اگر وہ ایک ہی سند سے ملنے والے محتمل متن کو صحیح تسلیم کرتے ہیں تو اسی متن کے دوسرے حصے میں آنے والی صراحت کو بھی قبول کریں، لیکن ایک کو قبول کرکے دوسرے کو ردّ کردینا دیانت وامانت کے تقاضوں کے صریح منافی ہے !! میرے نزدیک یہ بھی فن حدیث سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔ محدثین جب روایت کرتے ہیں تو بعض اوقات ان کی مرویات متنوع الفاظ میں ہوتی ہیں جو ایک دوسرے کے مفہوم کی تائید کرتی ہیں،جس طرح ایک واقعہ کے متعدد گواہ الفاظ کے فرق کے ساتھ مفہوم میں ایک