کتاب: محدث شمارہ 291 - صفحہ 109
مضامین میں کسی ایک مضمون سے بھی اگر یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کوئی ایک محقق بھی امامت زن کا قائل ہے تو جناب پروفیسر صاحب کا اعتراض قبول، اور اگر سب مضمون نگاروں کے دلائل کا نتیجہ اور مدعا یہ ہے کہ مردوں کے لیے عورت کی امامت کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں تو پھراس تنوع کو تضاد باور کرا کے قارئین کو کیوں کر دھوکہ دیا جاسکتاہے … ؟
حدیث ِاُمّ ورقہ رضی اللہ عنہا کی صحت وضعف
(2) پروفیسرخورشید عالم صاحب کو اس امر پر بھی اعتراض ہے کہ حضرت اُمّ ورقہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کے صحت وضعف پر تمام مقالہ نگارانِ محدث کا آپس میں اتفاق نہیں ہے۔
لیکن پروفیسر موصوف کا یہ اعتراض قطعاً درست نہیں۔ اُنہوں نے جانتے بوجھتے اُمت مسلمہ کے متفقہ موقف کے بارے میں اپنے قارئین کو اُلجھانے کی کوشش کی ہے حالانکہ اُنہوں نے اپنے مضمون میں خود اس حدیث کی متعدد اسناد بیان کی ہیں۔در اصل جن اہل علم نے اس حدیث پر ضعف کا حکم لگایا ہے، وہ اس کی کسی کمزور سند کی بنا پر حدیث کو ضعیف قرار دے رہے ہیں،جبکہ جن دوسرے اہل علم نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ، وہ دیگر اسانید کے ذریعے اس متن کو حاصل ہونے والی تقویت کی بنا پر ایسا کررہے ہیں۔متعدد اسناد والی ایسی حدیث کو ہی حسن لغیرہکہتے ہیں۔ فن حدیث سے آگاہ لوگ اس امر کو بخوبی جانتے ہیں کہ بہت سی اسناد اپنے ’توابع‘ یا ’شواہد‘ مل جانے کی بنا پر قابل اعتبار ہوجاتی ہیں۔
آسان الفاظ میں اس بات کو سمجھنے کے لئے اسلام کا اُصولِ شہادت سامنے رکھیے۔مثلاً اکیلی عورت اگر گواہی دے تو وہ گواہی نامکمل ہوتی ہے، اگر اس کے ساتھ دوسری عورت شریک ہوجائے تو ایسی صورت میں دو ناقص مل کر ایک پختہ شہادت کے قائم مقام ٹھہرتی ہیں۔ اس بات کو قرآنِ کریم میں یوں ذکر کیا گیا ہے :
﴿ فَإِنْ لَّمْ يَكُوْنَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَّامْرَأَتَانِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ أَنْ تَضِلَّ إِحْدٰهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدٰهُمَا الأخْرٰى﴾ (البقرة :282)
”اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دوعورتیں کافی ہیں جنہیں تم گواہوں میں سے پسند کرو، یہ کہ ایک عورت بھٹکگئی تو دوسری اس کو یاد دلادے۔“
محترم پروفیسر صاحب عمرگزیدہ بزرگ ہیں۔ اہل حدیث علما کی ہم نشینی کے دعوے دار