کتاب: محدث شمارہ 291 - صفحہ 108
کہ سابقہ اعتراضات کی وضاحت کی بجائے نئے سوالات پیدا کر دیے جائیں تو اس سے بحث طول تو پکڑ سکتی ہے، نتیجہ خیز ہرگز نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ اشراق کے شمارۂ جولائی میں ’محدث‘ کے اس شمارے کے بارے میں دومضامین کے ذریعے اسی قسم کے بعض نئے شبہات پیدا کر کے امامت ِزن کے مسئلہ کو دھندلانے کی ناکام کوشش کی گئی ہے۔ زیر نظر مضمون میں اشراق کے ایسے ہی بعض مغالطات کی وضاحت کی گئی ہے : جناب خورشید عالم کے پیش کردہ مغالطے (1) محدث کے اس شمارے پر سب سے بڑا اعتراض یہ اٹھایا گیا ہے کہ اس میں شائع ہونے والے مختلف مضامین میں ایک ہی موقف اختیار نہیں کیا گیا بلکہ مقالہ نگاروں کاآپس میں اختلاف ہے۔ اس لئے جواب کی بھی کوئی خاص ضرورت نہیں ! جناب خورشید عالم کا یہ اعتراض صرف اپنے موقف پر اصرار کرنے کی ایک ناروا کوشش ہے۔ تنوع کو تضاد بنا کر پیش کرناعلمی دیانت کے منافی ہے۔ موصوف کی ساری زندگی درس وتدریس میں گزری ہے ، اس کے بعد اگر وہ تنوع او رتضاد کے فرق کو ملحوظ نہ رکھیں تو یہ امر باعث ِحیرت ہے۔ بطورِ مثال سیرت النبی کے موضوع پر ہونے والے جلسے میں ہر مقرر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی کے بارے میں اپنے خیالات وجذبات مختلف انداز سے پیش کرتا ہے اور آپ کی عظمت یا اُمت کے ساتھ شفقت کو ہر ایک نئے ڈھنگ سے بیان کرتا ہے، جبکہ تمام کا مقصد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ رسالت کو ہی اجاگر کرنا ہوتا ہے۔ اس طرح ہونے والی تمام تقاریر پر اگر کوئی من چلا یہ الزام عائد کردے کہ تمام مقررین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ہی اُسلوب سے شان بیان کریں تب ہی آپ کی عظمت ثابت ہوگی تو اس اعتراض کو آپ کیا حیثیت دیں گے ؟ حقیقت یہ ہے کہ ایک ہی موضوع کو مختلف پہلووں سے پیش کرنا ایک طرف تواس کی صداقت کاواضح ثبوت ہوتاہے، دوسری طرف اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ہر شخص کو اپنی بات پیش کرنے کی آزادی بھی حاصل ہے، گویا کوئی من گھڑت موقف وہاں دھرایا نہیں جارہا۔البتہ تمام محققین کا مقصد ومدعا اور نتیجہ وخلاصہٴ بحث اگر ایک دوسرے کے متضاد ہو تو ایسی صورت میں اسے ضرور ’تضاد‘ کہا جانا چاہئے۔ یہی صورتحال ’محدث‘ میں شائع ہونے والے امامت ِزن کے مضامین کی ہے۔ ان