کتاب: محدث شمارہ 291 - صفحہ 106
(2) اصل یہ ہے کہ رسول کا اتباع ہی قرآن کا اتباع ہے۔
(3) قرآن کا اتباع ہو ہی اس شکل میں سکتا ہے کہ جس شکل میں رسول نے کیا یا کرنے کا حکم دیا
(4) چونکہ ﴿أَطِيْعُوْا الرَّسُوْلَ﴾ میں اطاعت ِخداوندی خود بخود آجاتی ہے، اس لئے ﴿أَطِيْعُوْا الرَّسُوْلَ﴾ قرآن میں بعض جگہ آیا ہے۔
(5) پس اطاعت ِرسول، عین اطاعت خدا ہے۔
لیکن بعد میں اس بنیادی مسئلہ میں پرویز صاحب نے قلا بازی لگائی تو پھر ان کا تکیہ کلام ہی یہ بن گیاکہ__ ”رسول کی اطاعت بھی کتاب کی پیروی کے ذریعہ ہوگی“ الفاظ کے تفاوت کے ساتھ اس بدلے ہوئے موقف کو بار بار دہرایا گیا۔ قبل از تقسیم برصغیر قرآن اور سنت رسول، دونوں ہی اسلام کے ستون تھے اور اُسوہٴ رسول، قرآن سے باہر (احادیث میں بھی موجود تھا اور کتاب و سنت یا قرآن واُسوہٴ رسول دونوں ہی اساس اسلام اور ماخذ احکام ومسائل تھے اور قرآن کی طرح اُسوہٴ رسول کے احکام بھی ناقابل تغیر و تبدل تھے ۔
”یہ تو ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ اسلامی شریعت کے احکام دو قسم پر مبنی ہیں ایک تو وہ جن میں کسی قسم کا تغیر و تبدل نہیں ہوسکتا، ان کے لئے قرآن کریم کی نصوص صریحہ اور رسول اللہ کا اسوہٴ حسنہ موجود ہے۔...“[1]
لیکن پاکستان بنتے ہی آفتابِ آزادی کے ساتھ جو طلوعِ اسلام ہوا تو اس میں سنت ِرسول اور اُسوہٴ نبی ماخذ مسائل نہ رہے۔ ان کی دینی حیثیت ختم ہوگئی اور اُسوہ قرآن سے الگ کوئی چیز نہ رہا بلکہ محصور فی القرآن قرار پایا اور اسی طرح سنت بھی صرف قرآن ہی میں محدود ٹھہری یوں کتاب و سنت سے مراد صرف کتاب ہی ہوگئی :
(1) ”سنت بھی کتاب کے اندر ہے ، باہر نہیں ہے۔“[2]
(2) ”کتاب و سنت سے مراد، اللہ کی کتاب ہے جس کی اتباع رسول اللہ نے فرمائی۔“[3]
اُسوہٴ رسول اور سنت ِرسول سے یوں یہ کہہ کرجان چھڑالی گئی کہ ”اُسوہ اور سنت سب کچھ قرآن ہی ہیں“ اور مغربی معاشرت کے جملہ عادات و اطوار اور اشتراکیت کا پورا نظام اور فرنگی تہذیب کا ہر فکر اور فلسفہ جو من پسند ٹھہرا، اسے یہ کہہ کر قبول کرلیا کہ ”یہ مطابق قرآن ہے۔“ اور یوں اللہ تعالیٰ کے دین کی تکمیل ہوئی۔ فطوبٰى لكم على ما أكمل پرويزدينكم!