کتاب: محدث شمارہ 291 - صفحہ 102
اللہ ، اہل ایمان کوملی ہے۔ چنانچہ پرویز صاحب فرماتے ہیں: ”اطاعت اور حکومت صرف خدا کی ہوسکتی ہے، کسی انسان کی نہیں۔ لیکن خدا تو ہمارے سامنے (محسوس شکل میں) نہیں ہوتا، ہم اس کے احکام کو براہ راست سن نہیں سکتے، اس لئے اس کی اطاعت کس طرح کی جائے؟ اس کے لئے اس نے خود ہی بتا دیا کہ یہ اطاعت اس کی کتاب کی مدد سے کی جائے، جسے اس نے نازل کیا ہے۔“[1] یہی منکرین حدیث کی وہ اصل گمراہی ہے جس پر وہ ضد اور ہٹ دھرمی سے ڈٹے ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں یہ بات کہاں فرمائی ہے کہ : ”اس کی اطاعت، اس کتاب کی مدد سے کی جائے جسے اس نے نازل کیا ہے۔“ کیا قرآن نے کہیں بھی یہ کہا ہے کہ من يتبع القرآن فقد أطاع اللّٰه ”جس نے کتاب اللہ کی پیروی کی ، اس نے اللہ کی اطاعت کی۔“ آخر خود سوچئے کہ یہ خداوند قدوس اور اس کی کتاب پربہتان تراشی ہے یا مزاج شناسی اُلوہیت؟ اس کے برعکس قرآن میں یہ مذکور ہے کہ ﴿مَنْ يُطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّٰهَ﴾ ”جس نے رسول کی اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی“ اور یہ بھی قرآن میں مذکور ہے کہ ایمان کا تقاضا بھی اور نتیجہ بھی ، اللھ سے گہری محبت کا ہونا ہے۔ ﴿وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا أَشَدُّ حُبًّا للّٰهِ﴾ ”ایمان والوں کی محبت، سب سے زیادہ اللہ سے ہوتی ہے“ اور پھر یہ بھی قرآن میں مذکور ہے کہ محبت ِالٰہیہ کا تقاضا اتباع رسول ہے۔ ﴿قُلْ إنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِىْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَيَغْفِرْلَكُمْ﴾ (آل عمران:31) ”(اے نبی!) فرما دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو اللہ تم سے محبت کرنے لگ جائے گا اور تمہارے گناہ معاف کرڈالے گا۔“ اور یہ قاعدہ کلیہ بھی ، قرآن میں بیان کیا گیا ہے کہ ﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِيُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰهِ﴾ (النساء :64) ”اور ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے، وہ اس لئے بھیجا ہے کہ باذن اللہ اس (رسول) کی اطاعت کی جائے۔“ حقیقت یہ ہے کہ اطاعتوں کے اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ اور کتاب اللہ کے درمیان، اطاعت ِرسول کی کڑی کو خارج کرڈالنا اور یہ سمجھنا کہ اطاعت ِرسول کے بغیر بھی کتاب اللہ کی پیروی ممکن ہے، قطعی محال ہے، ایسے لوگوں کو پاداش عمل سے ڈرنا چاہئے!!