کتاب: محدث شمارہ 291 - صفحہ 101
طرزِعمل ہے۔ (3) قرآن کریم کی رو سے حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اُسوۂ حسنہ بھی ہیں، مگر ہرطرح کے تمام انسانوں کے لئے نہیں بلکہ صرف ان افراد کے لئے،”جو اللہ اور یومِ آخرت کی امید رکھتے ہیں اور یادِخداوندی کو بکثرت مستحضر رکھتے ہیں۔“ ﴿لِمَنْ كَانَ يَرْجُوْ اللّٰهَ وَالْيَوْمَ الآخِرَ وَذَكَرَ اللّٰهَ كَثِيْرًا﴾ اس آیت کی وضاحت میں خود پرویز صاحب لکھتے ہیں: ”یہ آیت آپ اپنی تفسیر ہے یعنی ایک شخص جو خدا سے بہت ڈرتا ہے اور اسے یقین ہے کہ جو کچھ اس دنیا میں کیا جاتا ہے، ایک دن خدا کے حضور پہنچ کر اس کی جوابدہی ضرور ہوگی۔ اب جس شخص کا یہ ایمان و یقین ہو لامحالہ وہ یہی چاہتا ہے کہ اسے معلوم ہوجائے کہ وہ کون سی شاہراہ حقیقت ہے جس پرگامزن ہوکر وہ اس منزل مقصود کو پالے گا اور ادہر ادھر ضال ومغضوب (ذلیل و خوار) نہیں ہوتا پھرے گا۔ اس لئے فرمایا کہ تردّد کی کیا ضرورت ہے، رسول کی زندگی کا نمونہ سامنے ہے، اس ہادئ صراط مستقیم کے نقوش قدم موجود ہیں۔ بلا خوف و خطر ان نشانوں پر چلتے جاوٴ، کسی قسم کا بھی خوف وخطر نہ ہوگا۔“[1] (4) قرآن نے جگہ جگہ اطاعت ِ رسول کا حکم دیا ہے۔ منکرین حدیث، رسول کی حیثیت ایک ڈاکئے سے زیادہ نہیں سمجھتے۔ وہ حیثیت ِرسالت کو صرف ’پیغام پہنچا دینے‘ کی حد تک محدود جانتے ہیں، حالانکہ تبلیغ رسالت ایک الگ فریضہ ہے اور اطاعت رسول ایک الگ چیز ہے۔ تبلیغ رسالت (اور تبلیغ قرآن میں) اطاعت ِرسول کا حکم بھی شامل ہے۔ یہ اطاعت رسول، منکرین حدیث کے لئے بہت بڑی وجہ پریشانی ہے۔ چنانچہ وہ اس کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ اطاعت ِرسول کا معنی، اطاعت ِخداوندی ہی ہے جس کی عملی شکل کتاب اللہ کی پیروی ہے۔ لیکن یہ بات پھر ان کے لئے دردِ سر بن جاتی ہے کہ قرآنِ کریم میں اتباعِ قرآن کا الگ ذکر ہے اور اطاعت ِرسول کا الگ حکم ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ قرآنِ مجید کو کہیں بھی اُسوۂ حسنہ نہیں کہا گیا، جبکہ رسول اللہ (کی زندگی) میں اہل مسلمان کے لئے بہترین اُسوہ کا ذکر کیا گیا ہے لیکن منکرین حدیث یہاں دلیل کی بجائے، ضد اورہٹ دھرمی سے کام لیتے ہوئے باصرار یہ کھے چلے جاتے ہیں کہ رسول کی اطاعت، اصلاً اللہ ہی کی اطاعت ہے اور اللہ کی اطاعت کی عملی صورت صرف یہ ہے کہ کتاب اللہ کی پیروی کی جائے۔ یوں یہ لوگ اللہ کی اطاعت کی عملی صورت میں، اطاعت ِرسول کی اس کڑی کو خارج کردیتے ہیں جس کی وساطت سے کتاب