کتاب: محدث شمارہ 291 - صفحہ 100
ذریعہ نہیں بنایا۔
ج) جس انسانی آبادی کو دعوتِ خداوندی کااوّلین مخاطب بننا تھا اسی میں سے ایک بشر رسول کے ذریعہ کتاب پہنچائی۔
د)پھر رسول اور کتاب کی زبان بھی وہی تھی جو دعوت ِ خداوندی کے اوّلین مخاطبین کی تھی۔
ھ)کتاب، خود اپنے بھیجنے والے کی نگاہ میں تبیین رسول کی محتاج رہی ہے اور رسول، کتاب کا مامور من اللہ شارح اور ترجمان رہا ہے۔
ان پانچوں باتوں کا لازمی اور منطقی نتیجہ یہ ہے کہ اللہ نے اپنی حکمت ِبالغہ کے تحت انسانوں کی راہنمائی کے لئے کسی فرشتے کی بجائے انسان ہی کو رسول بنایا اور اسے کتاب دے کر اس قوم کی طرف بھیجا جو رسول کی ہم زبان تھی تاکہ وہ رسول، خالق کائنات کا نمائندہ مجاز ہونے کی حیثیت سے، اس کتاب کی جو توضیح و تشریح ان کے سامنے پیش کرے وہ ہم زبان ہونے کی بنا پر خوب سمجھ جائیں۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہے کہ تنہا زبان کی واقفیت، فہم کتاب اللہ کے لئے کافی نہیں ہے، جب تک کہ رسول کی وضاحت اس کے ساتھ نہ ہو۔
کتاب لے کر، تشریح پیغمبر کو نہ لینا، نہ صرف یہ کہ تعلیم بلا عمل، کتاب بلا پیغمبر اور قرآن بلا محمد کے نرالے مسلک کو اختیار کرنا، بلکہ اسی منصب ِرسالت کی تکذیب کرنا بھی ہے جس کا تقاضا ہی یہ ہے کہ رسول کتاب کی تشریح و تفسیر اورتبیین و توضیح کرے۔ اس کا انکار نفس رسالت ہی کا انکار ہے!!
(2) کتاب اللہ کے ساتھ، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق دو طرح کا ہی ممکن ہے:
اوّلاً _ یہ کہ کتاب آپ پر اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہو اور آپ بحیثیت ِرسول اس کتاب کی تبیین کے ذمہ دار ہوں۔ ہمارے نزدیک کتاب اللہ کے ساتھ رسول اللھ صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلق کی یہی نوعیت ہے۔
ثانیاً_ یہ کہ کتاب آپ کی تصنیف ہو اور آپ خود اس کتاب کے مصنف ہوں۔ کتاب اللہ کے ساتھ آپ کے اس تعلق کے قائل کفارِ عرب تھے۔ تاہم اگر کتاب اللہ کے ساتھ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق، تصنیف اور مصنف کا تعلق ہی مانا جائے تب بھی اس تبیین و تفسیر کو قبول کئے بغیر چارہ نہیں جو خود مصنف نے پیش کی ہے۔ خود مصنف کی اپنی تشریح کو چھوڑ کر کسی کا اپنی توضیح کرنا یا کسی تیسرے فرد کی تبیین کو تبیین مصنف کے مقابلے میں قبول کرنا انتہائی معقول