کتاب: محدث شمارہ 290 - صفحہ 9
” جو کوئی نکاح کے بغیر کسی بچے کا دعویٰ کرے تو نہ تو وہ بچہ اس زانی کا وارث بن سکتا ہے اور نہ وہ زانی اس بچے کا وارث قرار پائے گا۔“
(3) ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑے ہو کر اس بات کا دعویٰ کیا کہ فلاں لڑکا میرا بیٹا ہے کیونکہ اس کی ماں سے میں نے جاہلیت میں زنا کیا تھا۔ تو آپ نے فرمایا :
(لا دَعوة في الإسلام،ذهب أمر الجاهلية،الولد للفراش وللعاهر الحجر) (صحیح سنن ابو داود:1990)
”اسلام میں نسب دعووں سے ثابت نہیں ہوتا۔ جاہلیت کا دور لد گیا، بچہ تو فراش (بستر کے جائز مالک) کا ہے۔ اور زانی کے لئے پتھروں کی سزا ہے۔“
(4) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اُصولی فرمان متعدد کتب ِحدیث میں بیان ہوا ہے :
(الولد للفراش وللعاهر الحَجَر) (صحیح بخاری: 2053)
”بچہ اس کا ہوگا جس کی بیوی ہے اور زانی کے لئے پتھر ہیں ۔“
الحَجَرکا مطلب محرومی بھی آتا ہے یعنی زانی کیلئے محرومی ہے۔(لسان العرب: 4/166)
یہاں ایک بنیادی اُصول بیان کیا گیا ہے کہ بچہ اس آدمی کا ہے جس کے فراش (بیوی یا باندی) کے ہاں پید ا ہوا ہے۔ یعنی بچے کے درست نسب کے لئے ضروری یہ ہے کہ وہ آدمی کی بیوی یا اس کی اپنی باندی کے ہاں پیدا ہو، اگر وہ عورت زانی کے لئے جائز نہیں توگویا وہ اس کی فراش بھی نہیں ۔ ’فراش‘ عربی زبان میں بستر کوکہتے ہیں ۔فقہی انسا ئیکلوپیڈیا میں ہے:
فاقتضٰى ألا يكون الولد لمن لا فراش له كما لا يكون الحجر لمن لازنا له إذ القسمة تنفي الشركة (الموسوعة الفقهية: 34/97)
”تقاضا یہ ہے کہ جس کا بستر نہیں ، اس کا بچہ بھی نہ ہو، جیسا کہ اس کو پتھر کی سزا بھی نہ ہو جس نے زنا نہیں کیا۔ زانی اور والد میں یہ تقسیم کردینا ان کا بچے میں شرکت کی نفی کرتا ہے۔“
جب کسی عورت سے اس کے شوہر (یا مالک) کے سوا کوئی اور مرد زنا کرے اوربچے کے متعلق ان میں اختلاف پیدا ہو جائے، ہر کوئی دعویٰ کرے کہ یہ بچہ اس کا ہے تو تب یہ بچہ شوہر (یا باندی کے مالک)کی طرف ہی منسوب ہوگا۔ گویا فراش سے مراد صاحب ِفراش ہے، جیساکہ ایک حدیث میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں : (الولد لصاحب الفراش) (بخاری: 6750)