کتاب: محدث شمارہ 290 - صفحہ 8
کسی مرد کے نطفے سے پیدا ہو یا مرد کا عورت کے ساتھ شرعی نکاح ہونا بھی ضروری ہے؟ اس سلسلے میں اسلام کا اُصولی موقف یہ ہے کہ بچے کو صرف اسی شخص کے ساتھ ملحق کیا جائے گا جو اس کا جائز والد ہو۔ اگر وہ بچہ زنا کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے تو ایسی صورت میں اس کا نسب زانی سے نہیں جوڑا جائے گا اور شرعی طور پر بچہ زانی کا وارث نہیں ہوگا، نہ ہی زانی پر اس بچے کی کفالت فرض ہوگی۔ حتیٰ کہ اگر کسی بچے کے بارے میں یہ امر حتمی بھی ہو کہ وہ اس زانی کے زنا کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے، مثلاً زانی نے زنا کا اعتراف بھی کرلیا ہو تب بھی امر واقعہ کے باوجود اس زانی کو باپ نہیں بنایا جائے گاگویا یہ بھی زنا کی سزا کا ایک حصہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شرعی طور پر باپ ہونے کے ناطے جو حقوق اسے حاصل ہوتے ہیں ، وہ بھی اللہ کے ہی عطا کردہ ہیں ۔ اللہ کی نافرمانی پر مبنی ایک فعل کے ذریعے اسے دیگر شرعی حقوق بھی حاصل نہیں ہوں گے۔ اس مسئلہ پر تمام فقہاے کرام کا بھی اتفاق پایا جاتا ہے، جیسا کہ اس کا تذکرہ آگے آرہا ہے۔ اس سلسلے میں احادیث نبویہ حسب ِذیل ہیں : (1)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : (وإن كان من أَمَة لم يملكها أو من حرة عاهر بها فإنه لا يلحق به ولا يرث وإن كان الذي يدعى له هو ادعاه فهو ولد زِنية من حرة كان أو أمة … وهو ولد زنا لأهل أمّه من كانوا حرة أو أمة) (صحیح سنن ابو داود:1982) ”اگر کوئی شخص اپنی غیر مملوکہ لونڈی سے یا کسی آزاد عورت سے زنا کرے تو بچے کو نہ تو اس کی طرف منسوب کیا جائے گا،نہ ہی وہ اس کا وارث ہوگا۔ خواہ زانی یہ دعویٰ بھی کرے کہ وہ اس کا بچہ ہے۔وہ بچہ زنا کا نتیجہ ہے چاہے وہ لونڈی سے ہو یا آزاد عورت سے۔ (اگلی حدیث میں ہے کہ) ولد الزنا اس کی ماں کے خاندان کو دے دیا جائے گا، چاہے ماں آزاد ہو یا لونڈی۔ (لونڈی کا ’اہل‘ اس کے مالکان ہیں )۔“ دیکھئے!نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فرمان میں اسے باپ قرار دینے سے احتراز کرتے ہوئے صرف دعویٰ کرنے والا قرار دیا ہے، الفاظ کا ایسا محتاط استعمال شانِ رسالت کے ہی لائق ہے۔ (2) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (من ادّعى ولدًا من غير رِشدة فلا يَرِث ولايورث) (سنن ابو داود: 2264 )