کتاب: محدث شمارہ 290 - صفحہ 7
تو ایسے شخص پر جنت حرام ہے۔“ (صحیح بخاری: 6766)
٭ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فرمان میں نسب میں طعنہ زنی کرنے کو جاہلیت اور دوسرے فرمان میں کفر کے مترادف قرار دیا ہے ۔ (صحیح بخاری: 3850 اور صحیح مسلم:67)
٭ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
(من ادّعٰى إلى غير أبيه أو انتمٰى إلى غير مواليه فعليه لعنة اللّٰه المتتابعة إلى يوم القيامة) (صحیح سنن ابو داود:4268)
”جو شخص باپ کے سوا یا کوئی غلام اپنے آقا کے سوا دوسرے کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرے تو اس پر قیامت قائم ہونے تک متواتراللہ کی لعنت برستی رہتی ہے۔“
٭ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب لعان کی آیات نازل ہوئیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(أيما امرأة أدخلتْ على قوم من ليس منهم فليست من اللّٰه في شيىٴ ولن يدخلها اللّٰه جنته وأيما رجل جحد ولده وهو ينظر إليه احتجب اللّٰه منه وفضحه على روٴوس الأولين والآخرين) (سنن ابو داود:2263)
”جو عورت اپنے خاندان میں ایسے بچے کو داخل کرے جو ان کا نہیں تو اللہ کے ہاں اس کا کوئی حصہ نہیں اور اللہ اس کو اپنی جنت میں بھی داخل نہ کرے گا۔ ایسے ہی جو شخص اپنے بیٹے سے انکار کردے حالانکہ اسے معلوم ہے کہ وہ اس کا بیٹا ہے تو اللہ تعالیٰ روزِ قیامت اس سے پردہ فرمائے گا، اور اگلوں پچھلوں میں اس کو رسوا کرے گا۔“
مندرجہ بالا قرآنی آیات اور احادیث ِنبویہ سے معلوم ہوتاہے کہ اسلام میں نسب کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے اور نسب کو غلط یا خلط ملط کرنے کی شدید مذمت پائی جاتی ہے۔ ان سے یہ بھی پتہ چلتاہے کہ اسلام کی رو سے نسب اور نسل صر ف باپ٭ کے لئے مخصوص ہے اور یہ نسب ماں کی طرف سے نہیں چلتا۔
زنا کی صورت میں ’نسب‘ کس کے لئے؟
یہاں بڑا اہم سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ نسب کی صحت کے لئے کیا صرف یہ کافی ہے کہ بچہ
٭ مفسر قرآن حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول یہ ہے کہ اگر اصل باپ معروف ہو تب غیر سے نسبت کی گنجائش نکل سکتی ہے، ان کی دلیل حضرت مقداد رضی اللہ عنہ بن اسود کی نسبت ہے، جن کے والد کا نام توعمرو تھا لیکن اس کے باوجود اُنہیں کتب ِحدیث وغیرہ میں مقداد بن اسود ہی لکھا جاتا ہے اور وہ ابن اسود سے ہی مشہور ہیں ۔(الاصابہ: ۳/۴۳۴)