کتاب: محدث شمارہ 290 - صفحہ 6
آبَائَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِيْ الدِّيْنِ وَمَوَالِيْكُمْ ﴾ (الاحزاب: 5)
”اور اللہ نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارے حقیقی بیٹے نہیں بنایا۔ یہ تمہارے زبانی دعوے ہیں ، اللہ ہی حق بات کہتا او رسیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ انہیں ان کے حقیقی باپوں سے ہی منسوب کرو، یہی اللّٰھ کے نزدیک زیادہ انصاف والا طریقہ ہے ۔ اگر تمہیں ان کے باپوں کا علم نہ ہو تو پھر یہ تمہارے دینی بھائی یا تمہارے آزاد کردہ غلام ہیں ۔“
٭ صحیح بخاری میں ہے کہ یہ آیت حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی کیونکہ اُنہیں اوائل اسلام میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بیٹا کہا جاتا تھا۔ (رقم:4782)
٭ صحیح بخاری کی ہی ایک او رحدیث میں ہے :
أن أبا حذيفة تبنّٰى سالمًا كما تبنى رسول اللّٰه صلی اللہ علیہ وسلم زيدًا وكان من تبنى رجلًا في الجاهلية دعاه الناس إليه وورث ميراثه حتى أنزل اللّٰه تعالى ﴿ اُدْعُوْهُمْ لاٰبَآئِهِمْ ﴾ (رقم:4000)
”ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ نے سالم کو اپنا ’لے پالک‘ بیٹا بنا رکھا تھاجیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم نے زید کوبنایا تھا۔ جاہلیت کادستوریہ تھا کہ جوجس کو اپنا ’لے پالک‘ بنا لیتا، لوگ اسی کی طرف اسے منسوب کیاکرتے، اور اس کو ہی وارث بنایا جاتا حتی کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو نازل فرما دیا کہ انہیں ان کے باپوں کے نام سے ہی پکارو۔“
٭ نسب ونسل کی اہمیت کے پیش نظر قرآنِ کریم میں اس کے متعلق بعض آیات بھی نازل کی گئی تھیں ، بعد میں آیت ِرجم کی طرح ان کی تلاوت کرنا منسوخ قرار دے دیا گیا۔حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ایک لمبی حدیث ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
إنا كنا نقرأ فيما نقرأ من كتاب اللّٰه (أن لا ترغبوا عن آبائكم فإنه كفر بكم أن ترغبوا عن آبائكم) (صحیح بخاری:6830 اور 6768)
” قرآن کریم میں ہم یہ آیت بھی پڑھا کرتے تھے : تم اپنے باپوں سے اپنی نسبت کو ہٹاؤ مت ، جو کوئی اپنے باپ کے علاوہ اپنی نسبت کرے گویا یہ تمہارے کفر کے مترادف ہے۔“
٭ درست نسب کی اسلام میں اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
(من ادعى إلى غير أبيه وهو يعلم أنه غير أبيه فالجنة عليه حرام)
”جو شخص علم رکھنے کے باوجود اپنے آپ کو باپ کے علاوہ دوسرے کی طرف منسوب کرے