کتاب: محدث شمارہ 290 - صفحہ 58
عالم اسلامی کو اتحاد کی راہ دکھائی، جس نے اپنی شاعری میں شرفِ انسانی کے رموز کو واضح کیا، جس نے اپنے کلام سے قومی تشخص کے اُمور کو ابھارا، جس نے اپنی فکر اور شاعری کو اتحاد اسلامی اور تحریک آزادی کو فروغ دینے کا ذریعہ بنایا۔ یہ دانائے راز، جاوید منزل کے ایک کمرے میں بستر مرگ پر اس وقت کا انتظار کررہا ہے جب بندہ اپنے محبوب ِ حقیقی سے جاملتا ہے اور موت بندہٴ مومن پر حیاتِ دوام کے دروازے کھول دیتی ہے۔ اس قیامت خیز شب میں تمام تیماردار، ساڑھے بارھ بجے شب کو رخصت ہوگئے، علامہ کو پچھلے پھر رات کو بے چینی شروع ہوئی۔ شب کے تین بجے علامہ نے را جہ حسن اختر کو بلایا۔ جب وہ حاضر ہوئے تو علامہ نے اپنے ملازم دیوان علی سے فرمایا کہ تم سوجاوٴ، البتہ علی بخش جاگتا رہے، کیونکہ اب اس کے سونے کا وقت نہیں ۔ پھر راجہ حسن اختر سے فرمایا کہ پیٹھ کی طرف کیوں بیٹھے ہو؟ راجہ حسن اختر علامہ کے قریب ہو بیٹھے تو فرمایا: ”قرآن مجید کا کوئی حصہ سناوٴ ، کوئی حدیث یاد ہے؟ یہ فرما کر علامہ پر غنودگی طاری ہوگئی۔“[1] غورفرمائیے! وہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ جو آغوشِ موت میں بھی جاتے ہوئے یا تو قرآنِ کریم کی سماعت کا خواہش مند ہے یا حدیث ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سننے کا آرزو مند، وہ اپنی زندگی کا آخری عمل یا تو کتاب اللہ کی سماعت کو بنانا چاہتا ہے یا فرمانِ نبی کی سماعت کو، کیا اس کے متعلق یہ گمان بھی کیا جاسکتا ہے کہ وہ احادیث ِنبوی کو سرچشمہ اسلام تسلیم نہ کرتا تھا؟ اقبال کی طرف انکارِ حدیث کے مسلک کو منسوب کرنا بالکل ایسا ہی ہے، جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف یہودیت، عیسائیت یا دین شرک کو منسوب کیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ انکارِ حدیث کے مسلک کو اقبال کے کھاتے میں ڈالتے ہیں ، وہ اتنا بڑا جھوٹ بولتے ہیں کہ اس پر نہ تو وہ خالق ہی کی طرف سے کوئی حیا محسوس کرتے ہیں اور نہ ہی مخلوق ہی سے شرم محسوس کرتے ہیں ۔ پھر وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ جن لوگوں پر ان کے مسلسل اور پیہم بولے جانے والے جھوٹ کی قلعی کھل جاتی ہے، ان کی نگاہ میں ایسے لوگوں کی کیا عزت و آبرو باقی رہ جائے گی؟ آخرت کی جوابدہی کا احساس تو رہا ایک طرف، اگر یہ لوگ دنیا ہی میں اپنے جھوٹ کے انجام کا خیال کرلیں تو کبھی ایسی حرکت نہ کریں ، لیکن کیا کیا
[1] اقبال اور علماء پاک و ہند از اعجاز الحق قدوسی، ص۸۲تا۸۳