کتاب: محدث شمارہ 290 - صفحہ 57
کتب موجود ہوں ۔ علاوہ ازیں ہم ایک ایسا رہنما جوکامل اورصالح ہو اور قرآن حکیم میں بصیرتِ تامہ رکھتا ہو اور نیز انقلاباتِ دور حاضرہ سے بھی واقف ہو، مقرر کرنا چاہتے ہیں ، تاکہ ان کو کتاب اللہ اور سنت ِرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح سے واقف کرے اور تفکر اسلامی کی تجدید، یعنی فلسفہ ، حکمت، اقتصادیات اور سیاسیات کے علوم میں ان کی مدد کرے، تاکہ وہ اپنے علم اور تحریروں کے ذریعے تمدنِ اسلامی کے دوبارہ زندہ کرنے میں جہاد کرسکیں ۔“[1] مصر سے جب ایسی کوئی شخصیت میسر نہ ہوسکی تو ہندوستان ہی میں سے علامہ مرحوم کسی ایسے ہی جوہر قابل کے متلاشی رہے اور بالاخر ان کی نگاہ انتخاب سید ابوالاعلیٰ مودودی پر پڑی اور انہیں حیدر آباد دکن سے دارالسلام (جمال پور،پنجاب) میں منتقل ہونے کی دعوت دی۔ چنانچہ وہ علامہ اقبال کی اس دعوت کو قبول کرتے ہوئے دارالسلام میں تشریف لے آئے۔ مودودی صاحب ہی کیوں ، پرویز کیوں نہیں ؟ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے۔ اگر علامہ اقبال مرحوم، منکر حدیث اور منکر سنت تھے اور پرویز صاحب کے ہم مسلک ہونے کی بنا پر صرف حجیت ِقرآن ہی کے قائل تھے تو انہوں نے دارالسلام میں اس دینی خدمت کے لئے پرویزصاحب کو کیوں نہ دعوت دی؟ اور اس مودودی رحمۃ اللہ علیہ ہی کو کیوں دعوت دی، جن کا مسلک قرآن کی حجیت اور سنت کی سندیت وحجیت پرقائم تھا؟ جس پر ان کی کتاب ’سنت کی آئینی حیثیت‘ اور کئی دیگر تحریریں شاہد ِعدل ہیں ۔ حیات ِ اقبال کے آخری لمحات حدیث ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اقبال کا رویہ کیا تھا؟ اس کی وضاحت کے لئے اب میں حیات اقبال کے بالکل آخری لمحات کو نذرِ قارئین کررہا ہوں ۔ملاحظہ فرمائیے کہ موت سے چند ثانئے قبل انہوں نے حدیث ِنبوی کے متعلق کیا طرزِعمل اختیار کیاتھا : 21/اپریل 1938ء کی شب، بڑی قیامت خیز شب تھی۔ وہ مفکر اسلام جس نے اپنے نغموں سے مسلم معاشرے پر خودی کے راز کو آشکار کیا، جس نے رنگ و نسل، علاقائیت اور زبانوں کی عصبیت سے بلند ہوکر، ساری انسانیت کو سربلندی کا پیغام دیا، جس نے اپنے شعر و ادب سے
[1] طلوع اسلام، اگست ۱۹۳۹ء، ص۸۳