کتاب: محدث شمارہ 290 - صفحہ 51
آیات کے فوراً بعد جو عبارت ِپرویز دی گئی ہے وہ ’ترجمہ آیات‘ ہے جبکہ یہ لمبی چوڑی عبارت ’مفہوم آیات‘ ہے۔ ترجمہ اور مفہوم میں کیافرق ہے؟ معلوم یہ ہوتا ہے کہ شاید (پرویز صاحب کے نزدیک) جس عبارت میں الفاظِ آیات کے معنی و مفہوم کی کچھ رعایت ملحوظ رکھی جائے وہ ’ترجمہ‘ ہے، اور جس عبارت میں الفاظِ آیات کی لفظی پابندی سے بالاتر ہوکر الفاظ کابے پناہ اُمنڈتا ہوا سیلاب آتا دکھائی دے تو وہ ’مفہوم آیات‘ ہے ،جسے اگر جملہ آیاتِ قرآن کے حوالے سے یکجا کرکے کتابی شکل میں ڈھال دیا جائے تو پھر یہ کباڑخانہ ’مفہوم القرآن‘ کہلاتا ہے اور یہ سب کچھ فہم قرآن کو آسان بنا دینے کے لئے محاورہٴ عرب اور تصریف ِآیات کے اُصول پر کیا گیا ہے جہاں تک محاورہٴ عرب کا تعلق ہے، خود سوچ لیجئے کہ مذکورہ بالا آیات کا یہ مفہوم القرآن اگر دورِ نزول قرآن کا اَن پڑھ، جاہل، تمدن و حضریت سے یکسر عاری، سادہ مزاج بدو پڑھ لیتا، تو واقعی وہ قرآن کو اس قدر آسانی کے ساتھ سمجھ لیتا جس قدر سہولت کے ساتہ وہ زمین، آسمان، پہاڑ، صحرا اور دشت و غار کا مفہوم سمجھے ہوئے تھا؟ اب رہا تصریف آیات کا اُصول تو بظاہر کس قدر خوش آئند ہے یہ نام اور عملاً خواہ یہ’تحریف ِآیات‘ سے بھی آگے بڑھ کر تمسیخ آيات ہی کا روپ دھار لے۔ مجازی معنی اور باطنی معنی اگر قارئین کرام میں سے کوئی صاحب سورہ طہٰ کی آیت نمبر 17 تا آیت نمبر 22 کا وہ مفہوم جو قلم پرویز سے برآمد ہوا، لکھ کر طلوعِ اسلام کوبھیج دیں اور ساتھ یہ کہہ دیں کہ یہ ان آیات کاباطنی مفہوم ہے تو کیا آپ کو پتہ ہے کہ ’مفکر قرآن‘ صاحب یا طلوعِ اسلام کیا رد عمل ظاہر کرے گا؟ آپ کو علم ہو یا نہ ہو، لیکن ہمیں علم ہے کیونکہ ’مفکر ِقرآن‘ نے اپنی ’قرآنی بصیرت‘ کی بنا پر مرنے سے پہلے ہی ایسے معاملات میں اپنے ردعمل کا اظہار کردیا تھا۔ وہ فوراً ہی یہ کہہ دیں گے کہ ”قرآن کی موجودگی میں ، باطنی معنی اور مسلک کی تائید اور مدافعت وہ جذبات پرستی ہے جس سے قرآن نے اس شدت سے روکا تھا“[1] لیکن اگر اسی مفہوم آیات کو یہ کہہ کر’مفکر ِقرآن‘ یاطلوعِ اسلام کو ارسال کردیں کہ یہ آیات
[1] سلسبیل، ص۱۵۱