کتاب: محدث شمارہ 290 - صفحہ 50
گئے۔ ان میں فریق مخالف کو روشن دلائل و براہین سے قائل کرنے کی ہدایات بھی تھیں اور مقابلہ کے وقت، قوت اور سخت گیری سے کام لینے کے احکام بھی۔ جب یہ احکام دیے جاچکے (تو نداے غیب نے کہا کہ) اے موسیٰ! تم ان احکام و ہدایات پر قوت اور برکت ، ہر دو نقاطِ نگاہ سے غور کرو اور بتاوٴ کہ تم اُنہیں کیسا پاتے ہو۔[1] اس کے بعد بقیہ آیات کا مفہوم بھی ملاحظہ فرما لیجئے، لیکن الفاظ آیات کو ذہن میں مستحضر رکھتے ہوئے : 18.موسیٰ نے کہا ”بارِالٰھا! یہ احکام کیا ہیں ، میرے لئے تو سفر زندگی میں بہت بڑا سہارا ہیں ۔ میں اب انہی کے آسرے سے چلوں گا،اور ہر مشکل مقام پر، اُنہیں مضبوطی سے تھامے رکھوں گا تاکہ میرا قدم کہیں نہ پھسلے۔ انہی کے ذریعے اب میں اپنے ریوڑ ( یعنی بنی اسرائیل، جن کا گڈریا بنا کر تو مجھے بھیج رہا ہے) جھنجھوڑوں گا اور اس طرح ان کے جمود و تعطل کو مبدل بہ حرکت و عمل کروں گا۔ ان کے علاوہ زندگی کے دیگر معاملات کے متعلق جو میرے سامنے آئیں گے، ان سے بصیرت و راہنمائی حاصل کروں گا۔ 19.حکم ہوا کہ تم نے ٹھیک سمجھا، اب تم انہیں لوگوں کے سامنے پیش کردو۔ 20.اس کے بعد جب موسیٰ نے اس مہم پر غور کیا جس کے لئے اسے مامور کیا جارہا تھا تو اسے اندازہ ہوا کہ ان احکام کا لوگوں کے سامنے پیش کرنا، آسان کام نہیں ۔ اس نے ایسا محسوس کیا کہ وہ ضابطہ احکام نہیں ، ایک اژدہا ہے جو بڑی تیزی سے دوڑ رہا ہے۔ 21.خدا نے موسیٰ کو اطمینان دلایا اور کہا کہ اس خیال سے مت گھبراوٴ۔ ان احکام کو مضبوطی سے تھامے رکھو۔ ان کے متعلق جو بات تم نے کہی تھی (کہ ان سے فلاں فلاں منفعت بخش کام لوں گا) ہم انہیں ایسا ہی بنا دیں گے (یہ اژدہا کی طرح ہلاکت آفرین ثابت ہوں گے، باطل کے لئے لیکن تمہارے اور تمہاری قوم کے لئے سہارا بن جائیں گے۔ 22. اس مہم میں تو بالکل پریشان نہ ہو، بلکہ نہایت اطمینان و سکون اور کامل دل جمعی سے اپنی دعوت کو واضح اور روشن دلائل کے ساتھ پیش کرتا چلا جا۔ تو تمام مشکلات سے محفوظ و مصؤن باہر نکل آئے گا۔ تیری یہ کامیابی، تیری دعوت کی دوسری نشانی ہوگی (پہلی نشانی، دشمن کی تباہی اور دوسری نشانی تمہاری جماعت کا تمکن اور سرفرازی) [2]
[1] مفہوم القرآن،ج۲ص۷۰۵ [2] مفہوم القرآن، ج۲ ص۷۰۶