کتاب: محدث شمارہ 290 - صفحہ 5
بندہ یا بندی زناکا ارتکاب کریں ۔“
٭ جبکہ نسب کے تحفظ کے بارے میں یہ حساسیت انسانوں کے خود تراشیدہ قوانین میں نہیں پائی جاتی۔ مشہور اسلامی ماہر قانون جسٹس عبد القادر عودہ شہید لکھتے ہیں :
”اٹھارویں صدی کے آخر میں فلسفیانہ، سائنسی اور اجتماعی نظریات کی روشنی میں قانونی ارتقا کا آخری مرحلہ شروع ہوا اوراس وقت سے اب تک قانون نے عظیم ترقیات حاصل کرلیں اور جدید قانون کو ایسی بنیادیں حاصل ہوگئیں جن کا قدیم قوانین میں کوئی وجود تک نہ تھا۔ ان جدید نظریات کی اساس: انصاف،مساوات، رحم او رانسانیت کے اُصول ہیں ۔“ (اسلام کا فوجداری قانون،مترجم:ساجد الرحمن کاندہلوی: ج1/ص 14)
اسی بے احتیاطی کا نتیجہ ہے کہ مغرب میں ’نسب‘ اب باپ کی بجائے ماں سے منسوب ہوتا جارہا ہے، کیونکہ اس کو محفوظ رکھنے یا جاننے کے بااعتماد ذرائع کا تحفظ نہیں کیاجاتا،حتیٰ کہ زنا کی تعریف کو ہی بدل دیا گیا ہے اور ایک مرد اور عورت میں رضامندی سے ہونے والی ہم بستری اب زنا کے مفہوم سے ہی خارج ہے۔
نسب کا مفہوم
نسب کا لغوی مطلب ’باپ کی طرف منسوب‘ کرنا ہے۔اصطلاحی تعریف یہ ہے :
القرابة وهي الاتصال بين إنسانين بالاشتراك في ولادة قريبة أو بعيدة
(مغني المحتاج: 3/4،نيل المآرب: 2/55،التفريع: 2/338)
”اس سے مراد قرابت ہے اور قرابت دو انسانوں کے ما بین پیدائشی تعلق کو کہتے ہیں خواہ وہ تعلق قریب کا ہو یا دور کا ۔“
جواہر الإكليل میں ہے کہ نسب کا لفظ ’معین والد کی طرف منسوب ‘ کرنے پر بولا جاتا ہے۔ (ج2/ص100)
نسب صرف ’باپ‘ کے لئے
قرآنِ کریم میں اس بارے میں صریح حکم آیا ہے :
﴿ وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَآءَ كُمْ أَبْنَاءَ كُمْ ذٰلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْوٰهِكُمْ وَاللّٰه يَقُوْلُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيْلَ٭ اُدْعُوْهُمْ لِا ٓبَآئِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰه فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوْآ