کتاب: محدث شمارہ 290 - صفحہ 49
’مفکرقرآن‘ نے (یا ان کے متبعین نے) کسی مقام پر ان اُصول و ضوابط کا ذکر کیا ہو۔ ہم ان حضرات سے درخواست گزار ہیں کہ وہ ان اُصول وضوابط کی ضرور وضاحت فرمائیں جو اقتباسِ بالا میں مذکور ہیں ، تاکہ دنیا خود دیکھ لے کہ خود ’مفکر قرآن‘ نے ان اصول و ضوابط کو اپنی تحریروں میں کہاں تک مرعی و ملحوظ رکھا ہے یا انہیں بالکل ہی نظر اندا زکردیا ہے۔ اس درخواست کے بعد مندرجہ ذیل چند آیات کو ملاحظہ فرمائیے : ﴿وَمَا تِلْكَ بِيَمِيْنِكَ يٰمُوْسٰى ٭ قَالَ هِىَ عَصَاىَ اَتَوَكَّوٴُا عَلَيْهَا وَاَهُشُّ بِهَا عَلٰى غَنَمِيْ وَلِيَ فِيْهَا مَٰارِبُ اُخْرىٰ ٭ قَالَ اَلْقِهَا يٰمُوْسٰى ٭ فَاَلْقٰهَا فَاِذَا هِىَ حَيَّةٌ تَسْعٰى ٭ قَالَ خُذْهَا وَلَا تَخَفْ سَنُعِيْدُهَا سِيْرَتَهَا الأُوْلٰى٭ وَاضْمُمْ يَدَكَ اِلٰى جَنَاحِكَ تَخْرُجْ بَيْضَآءَ مِنْ غَيْرِ سُوْٓءٍ اٰ يَةً أخْرىٰ٭ ﴾ آیات آپ نے ملاحظہ فرما لیں ، اب ان کا معنی و مفہوم بھی ملاحظہ فرما لیجئے : ”اور (صداے غیبی نے پوچھا) اے موسیٰ! تیرے داہنے ہاتھ میں کیا ہے؟ عرض کیا ”یہ میری لاٹھی ہے، چلنے میں اس کا سہارا لیتا ہوں ، اسی سے اپنی بکریوں کے لئے پتے جھاڑ لیتا ہوں ، میرے لئے اس میں اور بھی طرح طرح کے فائدے ہیں ۔“حکم ہوا: ”اے موسیٰ! اسے ڈال دے۔“چنانچہ موسیٰ نے ڈال دیا اور دیکھتا کیا ہے کہ وہ ایک سانپ ہے جو دوڑ رہا ہے۔ حکم ہوا ”اب اسے پکڑ لے، ہم اسے پھر اس کی اصلی حالت پرکئے دیتے ہیں ۔“ اور (نیز) حکم ہوا ”اپنا ہاتھ، اپنے پہلو میں رکھ، اور پھر نکال، بغیر اس کے کہ کسی طرح کا عیب ہو، چمکتا ہوا نکلے گا۔ یہ (تیرے لئے) دوسری نشانی ہوئی۔“ [1] (طہ:17تا22) قارئین کرام! یہاں یہ بات ذہن نشین فرما لیں کہ آیات کی یہ ترجمانی بھی پرویز صاحب ہی کے قلم سے برآمد ہوئی ہے۔ اور اب ان ہی آیات (جی ہاں ، بالکل ان ہی آیات) کا مندرجہ ذیل مفہوم بھی ملاحظہ فرما لیجئے اور لطف یہ کہ یہ مفہوم بھی جناب پرویز صاحب ہی کے قلم کا مرہونِ منت ہے۔ از راہ کرم ہر آیت کے مفہوم کا مطالعہ کرنے سے قبل ایک نظر متعلقہ آیت کے الفاظ پر بھی ڈال لیجئے۔ اب ملاحظہ فرمائیے ، آیت 17 کا مفہوم جس میں گنتی کے یہ چند الفاظ ہیں : ﴿وَمَا تِلْكَ بِيَمِيْنِكَ يٰمُوْسٰى ﴾ 17.چنانچہ اس کے بعد موسیٰ کو اس انقلابی پروگرام کے سلسلہ میں ہدایات و احکام دیے
[1] معارف القرآن،ج۳،ص۲۰۲تا ۲۰۳