کتاب: محدث شمارہ 290 - صفحہ 48
نہ صرف یہ کہ پانی میں مدھانی چلانے کے مترادف ہے، بلکہ اگر یہ فریب دہی نہیں تو فریب خوردگی ضرور ہے۔ بہرحال اقامت الصلوٰة، ایتاء زکوٰة، انفاق اور جملہ دیگر اصطلاحات میں جو معانی و مفاہیم شارع علیہ السلام نے نظامِ اسلام کے ساتھ وابستہ کرتے ہوئے سمو دیے ہیں اور معاشیاتِ اسلام کے حوالہ سے جو لزومات و مضمرات ان میں ودیعت شدہ ہیں ، ان سے صرفِ نظر کرتے ہوئے کتب لغات کی بنیاد پر کھینچ تان کرکے مارکسزم کی فکری و ذہنی غلامی کے زیراثر، خود ساختہ معانی داخل کرنا سخت بے جا بات ہے۔ ’مفکر ِقرآن‘ صاحب کی عمر بھر کی ’قرآنی خدمات‘کا ماحصل یہ ہے کہ قرآنِ کریم کی ایک ایک اصطلاح کو لے کر اشتراکی تہذیب کی فکری اسیری میں مبتلا ہوکر کتب ِلغات کی آڑ میں اس کے اندر نئے مدالیل و مفاہیم داخل کئے ہیں ۔ (4)حقیقی و مجازی معانی کے اُصول و ضوابط اس میں شک نہیں کہ عربوں کے ہاں بعض الفاظ کے حقیقی اور مجازی معانی پائے جاتے تھے (اور اب بھی ہیں )۔ اہل زبان اُنہیں سمجھتے بھی تھے اور جناب مضمون نگار صاحب بھی اس کے قائل ہیں ، چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ ”حقیقت یہ ہے کہ کسی لفظ کے عرفی و حقیقی یا مجازی معانی لینے کے لئے بھی کچھ اُصول اور ضابطے ہیں ۔ یہ نہیں کہ کسی کا جو دل چاہے اور جب اور جیسا چاہے وہ مجاز کا بہانہ بنا کر اصل مفہوم و مدلول الفاظ کا تیا پانچہ کردے۔“[1] ’مفکر ِقرآن‘ صاحب (اور ان کی تقلید میں وابستگانِ طلوع اسلام) کی یہ عام روش ہے کہ انہیں اگر کسی حقیقت کو تسلیم کرنا بھی پڑے تو بڑے مبہم انداز میں کرتے ہیں ۔ ان حضرات کی تکنیک یہ ہے کہ کسی ایک جگہ بھی بات واضح اور متعین طور پر نہ کہی جائے، ہر بات کو مبہم رکھا جائے اور ہر جگہ متضاد بات کہی جائے تاکہ مداری کی پٹاری سے حسب ِمنشا جب اور جہاں جی چاہے بات پیش کردی جائے۔ اعتراف و اظہارِ حقیقت کی حد تک تو یہ بات درست اور بجا ہے کہ”حقیقی یا مجازی معانی، مراد لینے کے بھی اُصول و ضوابط ہیں “… لیکن حرام ہے جو کبھی
[1] طلوع اسلام،فروری ۲۰۰۵ء،ص۱۳