کتاب: محدث شمارہ 290 - صفحہ 47
ساختہ معنی ’کھلا رکھنا‘ پیش کرتے ہیں اور پھر سینہ زوری کا یہ عالم ہے کہ وہ یہ نہیں کہتے کہ انفاق کا معنی ’کھلا رکھنا‘بھی ہے، تاکہ کسی دوسرے معنی (بلکہ اصل مفہوم) کی گنجائش بھی باقی رہ جائے،بلکہ وہ ’خرچ کرنے‘ کے معنی کی قطعی نفی کرتے ہیں اور ’کھلا رکھنے‘ کے واحد معنی کا اثبات کرتے ہیں ۔ (جیسا کہ گذشتہ اقتباس میں گزر چکا ہے۔) مزید برآں وہ بہت سی قرآنی آیات میں اس معنی کو نبھا بھی نہیں سکے ہیں ، پھر یہ اصطلاح جب ان کی لغوی تحقیق کی جولا نگاہ سے نجات پاکر نکلتی ہے تو اس کا چہرہ انحرافات سے داغدار ہوچکا ہوتا ہے۔ ان انحرافات کا پردہ بھی اپریل 1989ء کے شمارہ محدث میں چاک کیا جاچکا ہے۔ لغوی ’ تحقیق ‘ کے لئے کتب ِلغات کو کھنگالنے کے ساتھ ساتھ ’مفکر ِقرآن‘ صاحب یہ ڈھنڈورا بھی پیٹتے نہیں تھکتے کہ (1) ”ہر نظام کی ایک اصطلاح ہوتی ہے اور وہ اصطلاح اسی نظام کے منطوق کے اظہار کے لئے وضع کی جاتی ہے۔“[1] (2)”جب کوئی لفظ بطورِ اصطلاح کے رائج ہو جائے تو اس کے لغوی معانی نہیں بلکہ اصطلاحی معانی لئے جاتے ہیں ۔“[2] (3) ”جب کوئی لفظ اصطلاح کے طور پر استعمال ہونے لگے، تو اس کے لغوی معنی نہیں لئے جاتے۔ اصطلاحی مفہوم لیا جاتا ہے اور ان میں اکثر بڑا فرق ہوتا ہے۔“ [3] ’مفکر ِقرآن‘ کا (ہر معاملہ کی طرح) اس امر میں بھی متضاد طرزِعمل ملاحظہ فرمائیے کہ وہ اقامت الصلوٰة، ایتاء الزکوٰة اور انفاق وغیرہ کو قرآنی اصطلاحات بھی مانتے تھے اور پھر یہ بھی تسلیم کرتے تھے کہ ”جب کوئی لفظ اصطلاح کی شکل میں مستعمل ہونے لگ جائے تو وہ اپنا لغوی مفہوم کھو دیتا ہے۔“ … پھر وھ ان قرآنی مصطلحات کے مفہوم کے تعین کے لئے کتب ِلغات کھول کر بیٹھ جایا کرتے تھے۔ اس ورق گردانی کے نتیجے میں کہیں کی اینٹ اور کہیں کا روڑا لے کر وہ نئے نئے معانی کا کنبہ جوڑا کرتے تھے۔ ہمارے نزدیک یہ ساری کارروائی جس میں وہ عمر بھر قرآنی اصطلاحات کا مفہوم ازروئے کتب ِلغات متعین کرنے میں مبتلاے زحمت رہے،
[1] طلوع اسلام،ستمبر۱۹۶۶ء،ص۶۰ [2] طلوع اسلام،اپریل۱۹۸۱ء،ص۶۱ [3] طلوع اسلام،جون ۱۹۸۱ء،ص۶۸