کتاب: محدث شمارہ 290 - صفحہ 46
اس اقتباس سے واضح ہے کہ اقامت ِصلوٰة اور ایتاء الزکوٰة قرآنی اصطلاحات ہیں ۔ ایک اور مقام پر انفاق کو بھی اصطلاحِ قرآن کہا گیا ہے : ”انفاق کے معنی خرچ کرنے کے نہیں بلکہ یہ ایک ایسی روش، نظریہ یا معاشی نظام کی اصطلاح ہے جس میں سامانِ زیست کو روک کر نہیں رکھا جاتا بلکہ اسے عالمگیر ربوبیت ِانسانیہ کے لئے کھلا رکھا جاتا ہے۔“[1] ان دونوں اقتباسات سے اقامت ِصلوٰة، ایتاء الزکوٰة اور انفاق (تینوں ) کا قرآنی اصطلاحات ہونا واضح ہے۔ یہ نہ سمجھئے کہ ’مفکر قرآن‘ کے نزدیک صرف یہ تین ہی قرآنی اصطلاحات ہیں ۔ نہیں ، بلکہ ان کے ہاں یہ فہرست بہت لمبی ہے لیکن ہم صرف ان تینوں پر ہی اکتفا کرتے ہیں ۔ ’مفکر ِقرآن‘ صاحب ان تینوں کو اسلام کی اصطلاحات بھی قرار دیتے ہیں ، لیکن پھر ان کا مفہوم متعین کرنے کے لئے کتب ِلغات کھول کر بھی بیٹھ جاتے ہیں ، چنانچہ اس اصطلاح کا مفہوم وہ ازروے لغت متعین کرتے ہیں اور شارع علیہ السلام کے اس مفہوم کو جو تواتر کے ساتھ ہم تک پہنچا ہے، قطعی نظر انداز کرتے ہیں اور لغوی موشگافیوں پر مبنی قلمی ورزش کے نتیجہ میں کئی پیراگراف اس کے لئے وقف کرڈالتے ہیں جن کو طوالت کے پیش نظر یہاں نقل نہیں کیا جارہا ہے۔ (دیکھئے ’لغات القرآن‘ از پرویز: ج3/ ص1034) اسی طرح کا معاملہ وہ ایتاءِ زکوٰة کی اصطلاح کے ساتھ کرتے ہیں ۔ ایتاء کی الگ لغوی بحث کرتے ہیں اور زکوٰة کی الگ۔ پھر موٴخرالذکر لفظ کی بحث کے دوران وہ علماے لغت کے حوالے سے جو کچھ بیان کرتے ہیں ، وہ ان کی قلمی چابک دستی کے باعث حقیقت سے بعید ہوتا ہے۔ لغات القرآن میں یہ بحث تقریباً دو صفحات پر پھیلی ہوئی ہے لیکن حرام ہے جو اس اصطلاح میں کہیں ان مضمرات و لزومات کا بھی ذکر ہو جو خود شارع علیہ السلام نے اس میں سمو دیئے ہیں ۔ اس بحث میں انحرافات کی قلعی، ماہنامہ محدث کے شمارہ مارچ 1989ء میں کھولی جاچکی ہے۔ یہی کھیل ’مفکر ِقرآن‘ نے انفاق کی اصطلاح کے ساتھ بھی کھیلا ہے اور وہ اس کے خود
[1] تفسیر مطالب الفرقان ، ج۱ ص۱۰۶