کتاب: محدث شمارہ 290 - صفحہ 45
وزناکار یا بدچلن‘ ہی اس کا معنی لکھا ہے۔ حتیٰ کہ خود پرویز صاحب نے بھی اپنے ماضی میں (جبکہ وہ روشنی سے تاریکیوں کی طرف اپنے سفر کی ابتدائی منازل میں تھے) یہی ‘زناکار وبدچلن‘ کا معنی درج کیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے، متذکرہ بالا آیات کے پرویزی تراجم : ”مریم بولی! یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میرے لڑکا ہو، حالانکہ کسی مرد نے مجھے چھوا نہیں ، اور نہ میں بدچلن ہوں ۔[1] اے ہارون کی بہن! نہ تو تیرا باپ بُرا آدمی تھا اورنہ تیری ماں بدکردار تھی (تو یہ کیاکربیٹھی؟)“[2] خدا معلوم کہ جناب مضمون نگار صاحب کے پاس (پرویزی لغات کے سوا) کون سا لغات ہے جس میں بغيًا کا معنی ’حدود شکن‘ لکھا ہوا ہے۔ اگر ایسا کوئی لغت ہے تو وہ اس کا حوالہ دے کر اور اس کے پبلشر کا اتہ پتہ بتا کر ہمارے لئے جودوکرم کا باب وا کرنے میں بخل و تساہل سے کام نہ لیں ۔ اپنے اُصول کی آپ مخالفت جناب مضمون نگار صاحب سے گزارش ہے کہ وہ ’فکر ِپرویز کی اصل قدر وقیمت‘ کے صحیح تعین کے لئے اس بات کوبھی مدنظر رکھیں کہ ’مفکر ِقرآن‘ صاحب اپنی تفسیری کارگزاریوں کے دوران خود اپنے تسلیم شدہ اصولوں کی بڑے دھڑلے سے مخالفت کیاکرتے تھے، مثلاً وہ یہ اُصول بیان کیاکرتے تھے کہ ”جب کوئی لفظ اصطلاح کی شکل میں مستعمل ہونے لگ جائے تو وہ اپنا لغوی مفہوم کھو دیتا ہے۔ اس کے بعد آپ جب بھی اس لفظ کا استعمال کریں گے وہ اپنے اُن تمام مضمرات ولزومات کو اپنے ساتھ لائے گا جن سے وہ نظریہ یا نظام عبارت ہے، جس کے لئے وہ اصطلاح وضع کی گئی ہے۔“[3] اُصول آپ نے ملاحظہ فرما لیا۔ اس کے بعد خود ’مفکر ِقرآن‘ ہی کے قلم سے یہ بھی ملاحظہ فرما لیجئے کہ قرآن میں کون کون سے الفاظ بطورِ اصطلاح مستعمل ہیں : ”قرآنِ کریم میں اقامت ِصلوٰة اور ایتاءِ زکوٰة کی اصطلاحات دین کے بنیادی ارکان (عمائد اور ستون) کی حیثیت سے باربار دہرائی جاتی ہیں ۔“[4]
[1] معارف القرآن، ج۳ ص۴۹۲،۵۴۹،۵۵۱ [2] ایضاً:ج۳ ص۵۵۳ [3] طلوع اسلام، ستمبر ۱۹۷۳ء ص۴۴ [4] تفسیر مطالب الفرقان، ج۱ ص۹۷