کتاب: محدث شمارہ 290 - صفحہ 44
صفحات پر پھیلے ہوئے ان جواہر پاروں میں سے کہ جنہیں اُردو میں ادبِ عالیہ کا مقام حاصل ہوچکا ہے، کوئی ایک لفظ ایسا دکھا دیں کہ جس کے ساتھ جناب پرویز صاحب نے وہی کچھ کیا ہو جو اُنہوں نے عابد کے لفظ کے ساتھ کیا ہے۔“[1] مجھے اس بات پر خوشی ہے کہ جناب مضمون نگار صاحب نے ’کوئی ایک لفظ‘ ہی دکھا دینے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ میں خود مقالہ میں اختصار کا خواہاں ہوں ۔ لیجئے ایک ایسا لفظ جس کے ساتھ واقعتاً پرویز صاحب نے وہی (بلکہ اس سے بھی بدتر) سلوک کیا ہے جس کا الزام وہ اپنے مخالف پر لگا رہے ہیں ۔ یہ لفظ ہے بَغْیًا جو سورہ مریم میں دو جگہ آیا ہے۔ ﴿قَالَتْ اَنّٰى يَكُوْنُ لِىْ غُلاَمٌ وَّلَمْ يَمْسَسْنِيْ بَشَرٌ وَّلَمْ اَكُ بَغِيًّا﴾ (مریم:20) ”(مریم نے) کہا میرے ہاں لڑکا کیسے ہوگا جبکہ مجھے کسی فرد بشر نے چھوا تک نہیں اور نہ میں بدکار و بدچلن رہی ہوں ۔“ ﴿ يٰٓاُخْتَ هَارُوْنَ مَا كَانَ اَبُوْكِ امْرَءَ سَوْءٍ وَّمَا كَانَتْ اُمُّكِ بَغِيًّا﴾ (مریم:28) ”اے اُخت ِہارون! نہ تیرا باپ ہی کوئی بُرا آدمی تھا اور نہ ہی تیری ماں بدکردار و زناکارہ تھی (تو یہ کیا پاپ کربیٹھی؟)“ ان آیات میں بغیًاکے لفظ کا ایک ہی معنی ہے:’زناکار، بدچلن، بدکار‘ عربی زبان میں یہ لفظ اسی مفہوم کے لئے آتا ہے۔ ’مفکر قرآن‘ نے اس لفظ کو طلوعِ اسلام کے مَصنع میں خراد پرچڑھا کر اسے اپنے خود ساختہ مفہوم میں ڈھالا ہے اورپھریہ اعلان کیا کہ سورہ مریم میں بغیا کا لفظ حدود شکن کے لئے (19/20) آیا ہے ، خاص طور پر زناکار کے لئے نہیں ۔[2] امر واقعہ یہ ہے کہ یہ لفظ زنا کار کے علاوہ کسی اور معنی میں آتا ہی نہیں ہے۔ اگر اس کا معنی تکلف ، تصنع اور بناوٹ کے ساتھ ’حدود شکن‘ کیا جائے (بشرطیکہ ایسا کرنا محال نہ ہو) تو یہ حدود شکنی بھی عفت و عصمت کے حوالہ ہی سے ہوگی، (نہ کہ مطلق حدود شکنی)۔ ’مفکر ِقرآن‘ نے لفظ بغیًاکے ساتھ، یہ سلوک صرف اس لئے کیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بن باپ ولادت کونہ ماننا پڑے۔ چودہ صدیوں میں منکرین حدیث کے گروہ کے علاوہ کسی مفسر قرآن اور مترجم قرآن عالم دین نے اس لفظ کا معنی ’حدود شکن‘ بیان نہیں کیا۔ ہر ایک نے ’بدکار
[1] طلوع اسلام، فروری ۲۰۰۵ء، ص۱۳ [2] لغات القرآن (پرویز) ص۳۳۶