کتاب: محدث شمارہ 290 - صفحہ 42
کریں ۔[1]
مثالیں تو بہت سی ہیں لیکن ایسے لوگوں کو یہ مثالیں کبھی نظر نہیں آیا کرتیں جو حقیقت کی آنکھوں سے دیکھنے کی بجائے عقیدت کی عینک میں سے دیکھنے کے عادی ہوں یا اپنی اندھی عقیدت و ارادت کا تقاضا یہ سمجھتے ہیں کہ ایسی نمایاں مثالوں سے صرفِ نظر ہی کرلیا جائے تاکہ عقیدت کے نازک آبگینوں کوٹھیس نہ لگ جائے، ایسی صورت میں ظاہر ہے کہ ع
آنکھیں اگر ہوں بند، تو پھر دن بھی رات ہے اس میں بھلا قصور کیاہے آفتاب کا !!
میں ایک مثال صرف اس لئے پیش کررہا ہوں کہ اوّلاً تو اس مقالہ میں زیادہ مثالوں کی گنجائش نہیں اور ثانیاً مطالبہ بھی صرف ایک ہی مثال کا ہے۔ ایک مبتدی طالب علم بھی جانتا ہے کہ جس طرح زید، خالد،سلیم، اسم معرفہ ہیں اُسی طرح نوح علیہ السلام ، لوط علیہ السلام ، ابراہیم علیہ السلام کی طرح آدم علیہ السلام بھی اسم معرفہ ہیں ۔ لیکن ہمارے ’مفکرقرآن‘ صاحب،آدم علیہ السلام کو (جو اسم علم ہونے کی بنا پر ہی اسم معرفہ ہے) بطور اسم نکرہ ہی کے پیش کرتے رہے ہیں ۔ آدم، بہرحال فردِ خاص تھا، بالکل اسی طرح جس طرح نوح علیہ السلام ، ابراہیم علیہ السلام ، اور عمران نام کے مذکور فی القرآن لوگ خاص افراد (اسم معرفہ) تھے لیکن ہمارے ’مفکرقرآن‘ صاحب حضرت آدم علیہ السلام کو اسم علم، اسم معرفہ یا فرد خاص قرار دینے کی بجائے یہ کہا کرتے تھے کہ
”آدم سے مراد آدمی ہے، قصہ آدم خود آدمی کی سرگزشت ہے نہ کہ کسی خاص فرد کی داستان!“ [2]
اب یہ فیصلہ کرنا طلوعِ اسلام یا جناب مضمون نگار صاحب کا اپنا کام ہے کہ آدم علیہ السلام جیسے اسم علم اور اسم معرفہ کو اسم نکرہ بنا ڈالنے کی یہ پرویزی مثال بے ہودہ و لا یعنی مثال ہے یا نہیں ۔
(2) عابد بمعنی حریص و لالچی؟
ستمبر 1990ء کے ’اشراق‘ میں چھپنے والے ایک مقالہ میں جناب خورشید احمد ندیم صاحب نے ایک عربی لفظ عابد کا معنی ’حریص اور لالچی‘ شخص بھی بیان کیا تھا۔ اس پر جناب مضمون نگار صاحب بڑے تعلّی آمیزانداز میں اپنے پندارِ علم کا مظاہرہ بایں الفاظ کرتے ہیں ۔
”خدا معلوم کہ جناب ندیم صاحب کے پاس کون سا اُردو لغت ہے کہ جس میں عابد کا معنی حریص و لالچی لکھا ہے، اگر ایسا کوئی لغت ہے تو وہ اس کا حوالہ دے کر اور اس کے پبلشرز کا
[1] طلوع اسلام، فروری ۲۰۰۵ء، ص۱۳
[2] ابلیس و آدم، ص۴۰