کتاب: محدث شمارہ 290 - صفحہ 41
اپنے مخالفین کے عیوب و اسقام کو ڈھونڈ پائیں اور نہ ہی ایسی ذہنی چابک دستی رکھتے ہیں کہ اپنے مخالفین میں خامیوں کو ’پیدا کرکے‘ ویسا پراپیگنڈا کرسکیں اور یوں طلوعِ اسلام کی گاڑی رواں دواں رہے۔ اس لئے وہ بے چارے مجبور ہیں کہ پرویز صاحب ہی کے ’علمی جواہرپاروں ‘ پر گزارہ کرتے رہیں اور اُنہیں کے گھسے پٹے نظریات کو اعادہ و تکرار کے ساتھ طلوعِ اسلام میں پیش کرتے رہیں ۔ اگر کہیں نقد و تبصرہ کا شوق سراُٹھائے تو دس پندرہ سال پہلے کے کسی رسالے میں شائع ہونے والے کسی مضمون و مقالہ کو اپنی طبع آزمائی کا نشانہ بنایا جائے۔ قرآن فہمی کے سلسلہ میں طلوعِ اسلام کی قریبی اشاعتوں میں شائع ہونے والے مباحث اسی نظریہٴ ضرورت کے شاخسانے ہیں ۔ ان مباحث کی ابتدا جناب ابو منیب راشد صاحب کے اس مقالہ سے ہوئی ہے جو ستمبر1990ء کے ’اشراق‘ میں چھپنے والے مضمون کی تردید میں لکھا گیا ہے حالانکہ برسوں پہلے جناب خورشید احمد ندیم صاحب کے ہاتھوں گڑے ہوئے مُردوں کو اکھاڑنے کی کوئی ضرورت نہ تھی لیکن بہرحال طلوعِ اسلام کا پیٹ بھی تو بھرنا تھا۔
سردست، جناب ابومنیب راشد صاحب کے مقالہ پر تفصیلی نقد و تبصرہ کرنا میرے پیش نظر نہیں ہے۔ چند ایک باتوں پر اجمالاً اظہار خیال کرنے کے بعد میں آئندہ قسط میں ’قرآن فہمی اور حدیث ِنبوی ‘ کے زیرعنوان اس مقالہ پر گفتگو کرنا چاہتا ہوں جو طلوعِ اسلام مئی 2005ء میں شائع ہوا ہے۔ اس لئے یہ مقالہ دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصہ میں ابومنیب راشد صاحب اور دوسرے میں جناب خواجہ ازہر عباس صاحب کی نگارشات پر نقد و تبصرہ کیا گیا ہے۔
حصہ اول
(1) جناب مضمون نگار کا تحدی آمیز مطالبہ
مضمون نگار صاحب ایک مقام پر بڑے تحدی آمیز انداز میں جناب خورشید احمد ندیم صاحب سے مستفسر ہیں کہ کیا وہ اس امر کو ثابت کرسکتے ہیں کہ پورے قرآن میں کسی ایک اسم علم کو پرویز صاحب نے اسم نکرہ بنا دیا ہو؟ یا کسی بھی اسم نکرہ کو اسم علم ٹھہرا دیا ہو۔ جہاں تک ہم نے پرویز صاحب کو سنا اور پڑھا ہے، ہمیں تو کوئی ایسی مثال نہیں ملتی۔ اگر ندیم صاحب کو پرویز صاحب کے ہاں کوئی ایک بھی ایسی بے ہودہ و لا یعنی مثال ملی ہو تو وہ ہمارے سامنے پیش