کتاب: محدث شمارہ 290 - صفحہ 40
تحقیق و تنقید پروفیسر محمد دین قاسمی
قرآن فہمی اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
’طلوعِ اسلام‘ کے ’اشراق‘ اور ’محدث‘کی تنقید میں لکھے گئے مباحث کا جائزھ
جناب غلام احمد پرویز بلا شبہ ذہین آدمی تھے۔ ذہانت و فطانت کے ساتھ عمدھ قلمی صلاحیتوں کے بھی حامل تھے۔ جدید افکار و نظریات سے متاثر ہی نہیں بلکہ انتہائی مرعوب بھی تھے۔ اسی فکری اسیری اور ذ ہنی غلامی کے باعث وہ قرآن مجید سے نت نئی چیزیں کشید کیا کرتے تھے، جو ان کے پیروکاروں کے نزدیک ’علمی جواہر پارے‘ اور ان کے مخالفین کی نظر میں ’تحریفات و تلبیسات‘تھیں ۔ تاہم وہ غوروفکر، سوچ بچار اور فکر و تدبر سے کام لینے والے تھے، لہٰذا فضاے دماغی میں اُٹھنے والی ہر لہر کے ساتھ ان کے آراء و نظریات میں بھی تبدیلی واقع ہوتی رہتی تھی،جس کے نتیجے میں طلوعِ اسلام کی فائل از ابتدا تا انتہا ایک وسیع خارزارِ تضادات و تناقضات کا منظر پیش کرتی ہے۔ لیکن اپنے ان تضادات پر پردہ ڈالے رکھنے کے لئے وھ مجبور تھے کہ خوردبینی مطالعہ کے ذریعہ اپنے مخالفین کی تحریروں میں سے تضادات کو ’دریافت کرکے‘ خوب اُچھالا جائے اور نہ ملنے کی صورت میں اپنی ذہانت و فطانت کو کام میں لاتے ہوئے اُنہیں ’پیدا کرکے‘ یہ ڈھنڈورا پیٹا جائے کہ
”مفاد پرستوں کے خود ساختہ اسلام کے کئی مختلف ایڈیشن شائع ہوئے لیکن مصلحت اندیشیوں کی دیمک نے اُنہیں اس طرح چاٹا کہ ان کا ایک حرف بھی زمانہ کے صفحہ پر دکھائی نہیں دیتا، لیکن تغیرات کی ان آندھیوں میں اور انقلابات کے ان جھکڑوں میں ایک طلوعِ اسلام ہے کہ جس میں آپ کو نہ کہیں تضاد ملے گا، نہ تخالف نظر آئے گا۔“[1]
لیکن پرویز صاحب کے فکری پسماندگان جو طلوعِ اسلام کی اشاعت کا بیڑا اب تک اُٹھائے ہوئے ہیں ، وہ نہ تو ذہانت و فطانت کے اعتبار سے اور نہ ہی قلمی صلاحیتوں کے اعتبار سے ان کے موزوں وارث بن پائے۔ وہ نہ تو پرویز صاحب کی سی خوردبینی نظر رکھتے ہیں کہ
[1] طلوع اسلام، مئی ۲۰۰۵ء، ص۲۳تا۲۴