کتاب: محدث شمارہ 290 - صفحہ 4
معاشرہ کا قیام اور اس کا استحکام موقوف ہے۔اگر یہ مصالح فوت ہوجائیں تو معاشرے کا نظام درہم برہم ہوجائے اور لوگ زبردست انتشار اور افراتفری کا شکار ہوجائیں ۔او ران کے تمام معاملات گڑبڑ ھوجائیں ۔دنیا میں بھی ان کے لئے بدبختی ہو اور آخرت میں بھی تکلیف وعذاب۔ اور ضروریاتِ دین پانچ ہیں : دین(مذہب)،نفس(جان)،عقل(ہوش وحواس)، نسل(سلسلہ پیدائش ونسب) اور مال(دولت)“ (ترجمہ بنام ’الوجیز‘:ص 620)
نسب کا تحفظ الہامی شریعتوں کا ہی امتیاز ہے !
نسل کی حفاظت کے احکامات اورلوازمات اسلام کے علاوہ تمام الہامی مذاہب میں بھی موجود رہے ہیں ، جیسا کہ اس سلسلے میں یہود سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مشہور مکالمہ صحیح بخاری میں موجود ہے کہ ایک یہودی مرد وعورت نے زنا کا ارتکاب کیا تو یہودی آپ کے پاس ان کا قضیہ لے کر آئے۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ تمہاری شریعت (توراة) اس بارے میں کیا کہتی ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ان کو شرمسار کیا جائے اور کوڑے مارے جائیں ۔وہاں عبد اللہ بن سلام بھی موجود تھے(جو اسلام قبول کرنے سے قبل یہود کے عالم رہ چکے تھے) اُنہوں نے کہا : تم جھوٹ بولتے ہو، توراة کھول کر پڑھو۔ یہودیوں نے توراة پڑھتے ہوئے متعلقہ حکم پر ہاتھ رکھ آگے پیچھے سے پڑھ دیا تو عبد اللہ بن سلام نے اُنہیں ہاتھ اُٹھانے کا کہا :
فإذا فيها آية الرجم فقالوا:صدق يا محمد فيها آية الرجم فأمر بهما رسول اللّٰه صلی اللہ علیہ وسلم فرُجما.قال عبد اللّٰه : فرأيتُ الرجل يجنأ على المرأة يقيها الحجارة (صحیح بخاری: 3635)
” اس میں رجم کی آیت موجود تھی، تب یہودی کہنے لگے:اے محمد!اس (عبد اللہ بن سلام) نے سچ کہا ہے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے بارے میں حکم دیا اور دونوں کو رجم کردیا گیا۔عبد اللہ بن سلام کہتے ہیں کہ میں نے زانی کو دیکھا کہ وہ زانیہ پر جھک کر اسے بچانے کی کوشش کررہا تھا۔“
نسل ونسب کا تحفظ الہامی قوانین کا ہی امتیاز ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
(واللّٰه ما من أحد أغير من اللّٰه أن يزني عبده أو تزني أمته) ( بخاری: 1044)
”اللہ کی قسم! اس بارے میں کوئی بھی اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر غیرت والا نہیں ہے کہ اس کا کوئی