کتاب: محدث شمارہ 290 - صفحہ 39
ہے۔ اس میں درج ذیل علتیں ہیں : راوی محمد بن حجر کے بارے میں امام بخاری نے کہا : فيه نظر (تاریخ کبیر :1/69) ”اس میں کلام ہے۔“ راوی سعید بن عبدالجبار کو ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے تقریب میں ضعیف کہا ہے۔ اُمّ عبدالجبار کے بارے میں تہذيب التہذیب میں عبدالجبار بن وائل کے ترجمہ میں ہے کہ اس نے اپنے والدین سے سنا نہیں ، اگر یہ بات صحیح ہے کہ اس نے اپنے باپ کی طرح اپنی والدہ سے بھی نہیں سنا تو اس سند میں چوتھی علت انقطاع ہے تو مشارالیہ سند اصل میں یوں ہے : محمد بن حجر ثنا سعید بن عبدالجبار عن عبدالجبار بن وائل عن اُمھ عن وائل بن حجر اور جہاں تک ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کا تعلق ہے، وہ صحیح ہے۔اس کو ابوداود، نسائی، احمد وغیرہ نے روایت کیا ہے۔ علامہ مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ نے کہا: ”یہ حدیث صحیح یا حسن لذاتہ ہے اور اس کے سب راوی ثقہ ہیں ۔“ (تحفة الاحوذی:1/229) مذکورہ بحث سے معلوم ہوا کہ راجح اور قوی مسلک یہی ہے کہ سجدے میں جاتے وقت آدمی گھنٹوں کی بجائے پہلے اپنے ہاتھ زمین پر ٹکائے، اس مختصر بحث سے وہ تمام توجیہات جو صورتِ سوال میں ذکر کی گئی ہیں ، کالعدم ہوجاتی ہیں ۔جملہ تفصیل کے لئے تحفۃ الاحوذی اور إرواء الغلیل ملاحظہ ہو۔٭ سجدہ کے بعد اُٹھتے ہوئے ٹیک لگانے کی کیفیت ٭ سوال:نئی رکعت کے لئے اُٹھتے وقت ہاتھوں کو ٹیک لگانے کی کیفیت کون سی ہے، آیا ہتھیلیوں کے ذریعے ٹیک لگائیں یا مٹھیاں بند کرکے؟ اور اگر دونوں کیفیات صحیح احادیث سے ثابت ہیں تو ترجیح کس موقف کو دی جائے اور کن دلائل کی بنا پر دی جائے؟ جواب:اُٹھتے وقت دونوں ہاتھ زمین پر ٹیکتے ہوئے مٹھیاں بند رکھنی چاہئیں ،جیسا کہ حدیث ِابن عمر رضی اللہ عنہ میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل مروی ہے۔ اس کو حربی نے غریب الحدیث میں روایت کیاہے اور علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے سلسلہ ضعیفہ (2/392) میں اس کی سند کو حسن کہا ہے۔ ٭ اس سلسلے میں تفصیلی مضمون کے لیے دیکھیئے : نماز میں سجدے میں جانے کی کیفیت ازمولانا منیر قمر سیالکوٹی شائع شدہ ماہنامہ ’ محدث ‘ لاہور : ج 31/عدد2 بابت فروری 1999ء .....صفحہ 8 تا 23 سیریل نمبر 223