کتاب: محدث شمارہ 290 - صفحہ 37
جواب: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ صحابی جلیل کے بارے میں جن اوصاف کی نشاندہی کی گئی ہے فی الواقع وہ انہی سے متصف تھے اور حدیث توفير اللحیة کے راوی ہو کر اس کی مخالفت کرنا عجیب سا معلوم ہوتا ہے، سو ان کے اس فعل سے صاف نظر آتا ہے کہ اُنہوں نے ضرور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سند لی ہے، ورنہ ڈاڑھیاں بڑھانے کی حدیث کے راوی ہوکر ایک ناجائز امر کا ارتکاب نہ کرتے۔ اس لئے اگر کوئی شخص مٹھی سے زائد ڈاڑھی کٹا لے تو جواز ہے، ہاں البتہ افضل یہی ہے کہ مٹھی سے زائدبھی نہ کٹائی جائے کیونکہ خیر القرون میں اس کی مثال کم ہی نظر آتی ہے نیز عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق یہ کہنا کہ وہ صرف حج وعمرہ کے موقع پر کٹاتے تھے، یہ بھی درست معلوم نہیں ہوتاکیونکہ حج اور عمرہ کے علاوھ ڈاڑھی کو چھیڑنا ناجائز ہوتا تو حج وعمرہ میں ناجائز فعل کا ارتکاب کس طرح جائز ہوگیا۔احرام سے فراغت کے لئے وہی کام کیا جاتا ہے جو غیر احرام میں جائز ہو، بالخصوص مُوَطَّأ امام مالک میں اس امر کی تصریح بھی موجود ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ جب حج کا ارادہ کرتے تو ڈاڑھی چھوڑ دیتے ،چنانچہ اصل الفاظ یوں ہیں :
أن عبداللّٰه بن عمر كان إذا أفطر من رمضان وهو يريد الحج لم يأخذ من رأسه ولا من لحيته شيئًا حتى يحُجَّ (2/350 مع زرقانی )
اسی طرح ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی ڈاڑھی کٹانا ثابت ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کے ساتھ یہی فعل کیا تھا کہ اس کی قبضہ سے زائد ڈاڑھی کاٹ دی۔
لیکن یہاں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ چند افراد کے عمل سے یہ لازم نہیں آتا کہ ساری اُمت اسی بات کی قائل تھی جس طرح کہ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ کی کلام سے مترشح ہے۔پھراسلامی تاریخ کے بہترین ادوار میں اگر یہ فہم متفقہ ہوتا تو چند افراد کی تصریح کی چنداں ضرورت نہ تھی، ظاہر ہے کہ سلف صالحین میں دیگر لوگ توفیر لحیة کے قائل تھے، اس بنا پر جو نتیجہ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اخذ کیا ہے، یہ محل نظر ہے اور اگر اس امر کی تفصیل مطلوب ہو تو فتح الباری شرح صحیح البخاری: ج10/ص350 کی طرف رجوع فرمائیں ۔
سجدہ میں پہلے ہاتھ رکھے جائیں یا گھٹنے؟
٭ سوال: صحیح ابوداود از علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ میں جاتے