کتاب: محدث شمارہ 290 - صفحہ 36
ڈاڑھی کے معاملہ میں جو صحیح ترین حدیث ہے، اس کے مرکزی راوی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ہیں ۔ یہ حدیث صحیح بخاری اور صحیح مسلم دونوں میں منقول ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ ایسا پختہ، متبع سنت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا قابل تحسین نمونہ رسول اللّٰھ صلی اللہ علیہ وسلم کے ڈاڑھی کے متعلق ارشادِ مبارک کی یہ توضیح کرتا ہےکہ ڈاڑھی کی کم سے کم مسنون مقدار ایک مشت ہے جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ حج کے موقع پر اپنی ڈاڑھی کے بال پکڑتے اور جو مٹھی کے نیچے ہوتے، ان کو کاٹ ڈالتے۔ آپ رضی اللہ عنہ کبائر و صغائر سب صحابہ کے سامنے یہ عمل کرتے تھے لیکن کوئی بھی اس پر اعتراض نہ کرتا۔
یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ خود ہی ڈاڑھی بڑھانے والی حدیث کو روایت کریں اور پھر اس کے خلاف عمل بھی کریں ،جبکہ آپ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر سنت کا خوب اہتمام رہتا تھا۔ میرا خیال ہے کہ اسی وجہ سے علامہ ناصر الدین البانی رحمۃ اللہ علیہ بھی ان لوگوں کے موقف کی تائید کرتے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ڈاڑھی کی کم سے کم مسنون مقدار ایک مشت ہے اور اس سے زیادہ افضل ہے۔ چنانچہ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ إعلام الفتية بأحكام اللِّحيةص63 میں مولانا حفظ الرحمن اعظمی ندوی کے نام لکھتے ہیں :
”میرا مسلک وہی ہے جس کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے کہ ڈاڑھی میں قبضہ سے زائد بال لے لئے جائیں اور اس مسلک کی دو دلیلیں ہیں :
(1) سلف صالحین، حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم وتابعین رحمۃ اللہ علیہم ، ائمہ مجتہدین اور خصوصاً امام اہل سنت احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اور صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جو حدیث إعفاء اللحية (داڑھی کو بڑھنے دینا) کے راوی ہیں ، ان کا عمل اور قبضہ سے زائد لینے کی متواتر روایات ؛ (یعنی ان تمام صالح اصحاب کا عمل ڈاڑھی میں قبضہ سے زائد بال لے لینے کی مشروعیت پر دلالت کرتا ہے) اگر حدیث إعفاء اللحيةاپنے اطلاق پر ہوتی جیسا کہ بعض متاخرین کاخیال ہے تو مذکورہ تمام حضرات اس کی مخالفت (قطعاً) نہ کرتے۔
(2) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے فعلاً (تو کجا) قولاً بھی اس کے منافی کسی ہدایت کا منقول نہ ہونا (اس موقف کی مشروعیت پر دلالت کر رہا ہے) اور بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ڈاڑھی کے بال نہ لیتے تھے، تو یہ بات محض گمان ہے جس کا خود ان لوگوں کو بھی یقین نہیں یا دوسرے لفظوں میں روایت کی رو سے اس کی کوئی اصل نہیں ۔“ (سائل :حافظ عاطف ،اوکاڑا)