کتاب: محدث شمارہ 290 - صفحہ 35
مرتکب بدعات و شرکیات کا حصہ دار تصور ہوگا اور دوسری روایت میں ہے: (من تشبه بقوم فهو منهم) (ابوداود) ”جو کسی قوم سے مشابہت کرے وہ انہیں میں سے ہے۔“ قرآنِ مجید نے بھی مشرکین سے دوری کی تلقین فرمائی ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِىْ الْكِتٰبِ أنْ إذَا سَمِعْتُمْ آيٰتِ اللّٰه يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوْا مَعَهُمْ حَتّٰى يَخُوْضُوْا فِيْ حَدِيْثٍ غَيْرِهِ إنَّكُمْ اِذًا مِّثْلُهُمْ﴾ ”اور اللہ نے تم پر اپنی کتاب میں (یہ حکم) نازل فرمایا ہے کہ جب تم (کہیں )سنو کہ اللہ کی آیتوں سے انکار ہورہا ہے اور اُن کی ہنسی اُڑائی جاتی ہے تو جب تک وہ لوگ اور باتیں (نہ) کرنے لگیں ، ان کے پاس مت بیٹھو، ورنہ تم انہیں جیسے ہوجاوٴ گے ۔“ (النساء:140) اور دوسرے مقام میں ہے: ﴿وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِيْنَ يَخُوْضُوْنَ فِيْ آيَاتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتّٰى يَخُوْضُوْا فِيْ حَدِيْثٍ غَيْرِهِ﴾ ( الانعام:68) ” اور اے نبی! جب تم دیکھو کہ لوگ ہماری آیات پر نکتہ چینی کر رہے ہیں تو تم ان کے پاس سے ہٹ جاوٴ یہاں تک کہ وہ اس گفتگو کو چھوڑ کر دوسری باتوں میں لگ جائیں ۔“ یوں بھی مستحقین صدقہ کا وجود ہر جگہ ممکن ہے، ایسی خام خیالی سے شرک کے اڈے کو آباد کرنا خسارے کا سودا ہے، یہ کبیرہ گناہ ہے جو وسیلہ شرک و بدعت ہے۔ لا علمی کی صورت میں توبہ کرنا چاہئے ورنہ انجام کار خطرہ میں ہے۔ واللّٰه يهدي من يشاء إلى صراط مستقيم مشت سے زیادہ ڈاڑھی اور علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ ٭ سوال: محدث کے چند شمارے نظر سے گزرے ، اس میں مفید مضامین کے مطالعہ کے بعد میرا یہ تاثر پختہ ہوگیا کہ محدث کے تمام شمارے اسی طرح علم وتحقیق کا مرقع ہوں گے۔ ان میں ’دارالافتاء‘ کے نام سے قرآن وسنت کی روشنی میں جوابات کا سلسلہ مجھے بہت پسند ہے۔ کچھ دنوں سے چند دوستوں سے مباحثہ نے میرے ذہن میں خلجان پیدا کردیاہے اور میں کسی ایک بات پر مطمئن نہیں ہوپارہا۔ میں وہ چند سوالات جو موضوعِ بحث تھے، اور جو اُلجھنیں مجھے اس موضوع پر دوسری کتب کا مطالعہ کرنے کے بعد وارد ھوئیں ان کا ذکر کر رہا ہوں ۔براہ کرم مفصل اور مدلل جواب سے نوازیں ۔میرے سوالات حسب ِذیل ہیں :