کتاب: محدث شمارہ 290 - صفحہ 33
گواہوں سے بھی ہوجاتا ہے لیکن اس بنا پر اس پر حد ِزنا جاری نہیں کی جاتی۔ ڈی این اے وغیرہ قرائن کی حدود میں غیر موٴثرہونے کی بڑی و جہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی ہے کہ (إدرء وا الحدود ما وجدتم لها مدفعا) (سنن ابن ماجہ :2545) ”جہاں حدود ترک کرنے کی کوئی گنجائش ہو، وہاں حدود کو دو رکرو۔“ یہی وجہ ہے کہ جمہور فقہا (احناف، شافعیہ اور حنابلہ)کا موقف یہی ہے کہ حدزنا میں قرائن کااعتبار نہ کیا جائے بلکہ اس کے عائد ہونے کا جو نصاب نصوص میں آیا ہے ( یعنی چار گواہ یااعتراف) اسی پر اکتفا کیا جائے۔ البتہ فقہا مالکیہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس واقعہ کی بنا پر قرائن کو اثباتِ زنا میں بھی معتبرخیال کیا ہے، جس میں اُنہوں نے ایک کنواری کے حمل کو زنا کے ثبوت کے لئے معتبر قرار دیا۔(بخاری:6829) اسلام میں زنا کا مسئلہ بطورِ خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی سنگینی اس قدر ہے کہ زنا کی جھوٹی تہمت لگانے والے کوبہتان کی سزا کا سامناکرنا پڑتا ہے۔ جہاں تک حدود کے علاوہ دیگر جرائم کے لئے قرائن کے معتبر ہونے کا تعلق ہے تواس میں بھی فقہا قرینہ قطعیہ اور قرینہ ظنیہ کا فرق کرتے ہیں ۔ روزنامہ پاکستان میں اس مسئلے پر گزشتہ دِنوں علما کا فورم ہوا جس کی رپورٹ ہفت روزہ ’اہلحدیث‘(شمارہ 36/7/ 4 مارچ2005ء) میں شائع ہوئی۔ اس فورم میں اکثر علما نے ڈی این اے ٹیسٹ کو ظنی قرینہ قرار دیا ہے، راقم کی نظر میں اگر اسے قطعی حیثیت بھی دی جائے تو حد ِزنا میں اس کو معتبر نہیں قرار دیاجاسکتا، البتہ حدود کے سوا دیگر سزاوٴں میں اس پر بنیاد رکھی جاسکتی ہے۔ یوں بھی ڈی این اے ٹیسٹ کی رپورٹ میں دورانِ تجزیہ کوتاہیوں یا مختلف مفادات کو بھی بالخصوص پاکستان جیسے ملک میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔مزید تفصیلات کے لئے درج ذیل مضامین کا مطالعہ مفید ہوگا : قانون میں قرائن کی حجیت مجلہ ’منہاج‘ لاہور اکتوبر 1990ء ص73 تا 106 قیافہ و فراست میں قرائن کی حجیت مجلہ ’منہاج‘ لاہور اکتوبر 2001ء ص 169 تا 184 قیافہ اور قرائن کی حیثیت مجلہ فکر ونظر،اسلام آباد اور الطرق الحكمية از ابن قیم الجوزیہ رحمۃ اللہ علیہ اسی مضمون کا اختصار روزنامہ جنگ کے کلر ایڈیشن موٴرخہ 10/جون 2005ء اور ہفت روزہ ’الاعتصام ‘ میں دیکھیں