کتاب: محدث شمارہ 290 - صفحہ 32
کیس میں عدالت نے جناب محمد اسمٰعیل قریشی ایڈوکیٹ کو بھی معاونت کے لئے طلب کیا۔
گذشتہ دِنوں عدالت نے بھی یہ فیصلہ سنا دیا کہ DNA سے زنا کی حد نہیں لگائی جاسکتی۔ اس پر جنرل مشرف نے یہ بیان دیاکہ ہمیں قدامت پسند علما کی تشریحات سے شریعت کو آزاد کرانا ہوگا، DNA زنا کی سزا کے لئے معتبر ہے۔ جناب صدر کے اس بیان کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر DNA کی بنا پر ملزمان کو زنا کی حد لگائی جاتی تب بھی صدر کو اعتراض ہوتا، صدر کے اس بیان کا مقصد علما کے بہانے سے اسلام کو قدیم قرار دینا اور محض مغرب نواز حلقوں کو خوش کرنا ہے۔ تفصیلات کے لئے اخبارات ملاحظہ فرمائیں ۔
ڈی این اے کی حیثیت ؛ اثباتِ جرم میں
یوں تو ہمارا موضوع اثباتِ نسب میں قرائن کی حیثیت تک محدود تھا، لیکن اس کے ایک اور پہلو پر مختصر بحث بھی تتمہ کے طور پر ملاحظہ فرمائیے۔ جہاں تک اثباتِ نسب کا تعلق ہے تو وہ صرف نکاح سے ثابت ہوتا ہے اورنکاح کے بعد بعض شبہات کی موجودگی میں قرائن یا ڈی این اے کے ذریعے صرف ’نسب کی ترجیح‘ کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔
دوسری طرف رفع نسب کا اسلامی شریعت میں ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے ’لعان‘ ۔ گویا منکوحہ کے بارے میں شوہر کو دیگر لوگوں سے ایک خصوصیت حاصل ہے کہ وہ قسموں کی بنیاد پراپنی بیوی کے بچے سے اپنے نسب کو رفع کرسکتا ہے، لعان صرف میاں بیوی کے مابین ہے۔ دوسرے کیس میں امریکہ میں مقیم شخص کوبیٹی سے اپنا تعلق منقطع کرنے کیلئے لعان ہی کرنا ہوگا۔
٭ قرائن کی ایک تیسری حیثیت بھی ہے اور وہ ہے اثباتِ جرم کی۔اثبات جرم کے بھی دو پہلو ہیں : آیا وہ جرم حدود میں سے ہے … یا اس کا تعلق دیگر جرائم سے ہے۔
اگر اس کا تعلق حدود سے ہے تو حدود کی تفصیلات اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے بجائے اپنے ذمے لی ہیں ، کوئی حاکم نہ تو حد کی سزا میں کمی بیشی کرسکتا ہے اور نہ ہی حد کو لازمی کرنے والے جرم کی تفصیلات میں اپنی طرف سے ترمیم کرسکتا ہے۔ حدزنا میں یوں بھی مقصد صرف جرم کا ثبوت نہیں بلکہ شارع کے پیش نظر مزید حکمتیں بھی ہیں ، یہی وجہ ہے کہ وقوعہ کا ثبوت تو دو