کتاب: محدث شمارہ 290 - صفحہ 31
(1) ہائیکورٹ نے انسانی قوانین کے پیش نظر اس مسئلہ کو زنا کی حیثیت سے علیحدہ کرکے غور کیا ہے، جبکہ نسب کا مسئلہ کوئی مجرد سوال نہیں بلکہ یہ نسب ایک فعل کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔ اگر وہ فعل درست ہے تو اس کی بنا پرنسب کو ثابت کیا جانا چاہئے ، اور اگر وہ فعل درست نہیں تو اس نسب کا اعتبار نہیں ہونا چاہئے۔ عدالت کا نسب کو مجرد طورپر زیر بحث لانا درست نہیں ۔ عدالت کا یہ رویہ جدید سائنس سے مرعوبیت اور اسلامی شریعت سے لاعلمی کا نتیجہ ہے۔
(2) شہزاد کا دعویٰ ہے کہ وہ ابھی تک کنوارا ہے، اگر وہ کنوارا ہے اوریہ بچہ ثمینہ سے غلط تعلقات کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے، تو یہ زنا ہے اور زنا سے نسب ثابت نہیں ہوتا۔
(3) اگر شہزاد کا ثمینہ سے شادی کا دعویٰ بھی مان لیا جائے تو اسلام کی رو سے عیسائی مرد سے مسلمان عورت کی شادی نہیں ہوسکتی، تب بھی یہ نکاح باطل ہے جس کی وجہ سے شہزاد کو یہ بچہ نہیں مل سکتا۔ عدالت کو شہزاد کے اعترافِ زنا کے جرم میں سزا دینا چاہئے، اگر اسلام کی رو سے نہیں تو کم از کم عیسائیت کی روسے حرام ہے یا پاکستانی قانون میں زنا ایک قابل سزا جرم !
(4) بالفرض یہ بچہ شہزاد اور ثمینہ کے تعلقات کے نتیجے میں تسلیم بھی کرلیا جائے تو اس بچے کو ثمینہ کو دینا چاہئے تھا، جبکہ عدالت نے ثمینہ کے بارے میں معمولی تحقیق یا اس کا بیان لینے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔
(5) عدالت کا بچے کو شہزاد کے حوالے کردینا گویا زنا کا انعام دینے کے زمرے میں آتا ہے اور اس سے اسلامی معاشرت شدید خطرے میں پڑ جاتی ہے کہ ایک آدمی غلط کام کا بھی ارتکاب کرے او رساتھ اس زنا کے نتیجے میں ہونے والے بچے کا وارث بھی بن بیٹھے۔
(2) ایسا ہی ایک واقعہ انہی دنوں عدالت ِعالیہ میں امریکہ میں مقیم شخص کا پیش آیا۔ یہ شخص گاہے بگاہے پاکستان آتا رہتا۔ اس دوران اس کے ہاں ایک بچی پیدا ہوئی۔ چند سالوں بعد اس کو اس بچی پر شک گزرا تو وہ اسے امریکہ لے گیا اور وہاں اپنا اور اپنی بچی کا DNA ٹیسٹ کروایا، دونوں کی رپورٹ میں فرق نکلا۔ چنانچہ پاکستان آکر اس نے اپنی بیوی اور ایک غیر شخص پر زنا کا پرچہ کٹوا دیا۔ یہ پاکستان کی عدالتی تاریخ کا پہلا واقعہ ہے۔ دوسری طرف جس شخص پر الزام لگایا گیا، وہ بھی عدالت میں اپنے آپ کو اس الزام سے بری قرا ردیتا ہے۔ اس