کتاب: محدث شمارہ 290 - صفحہ 30
میرا ہے، جیسا کہ اس کی پیدائش پرچی وغیرہ سے ثابت ہوتا ہے، لہٰذا اسے میرے حوالے کیا جائے۔ اس موقعہ پر شہزاد مسیح نامی ایک کنوارے لڑکے نے یہ دعویٰ کیا کہ روحیل تو میرا بیٹا ہے اور ثمینہ ابراہیم گجر نامی ایک لڑکی سے ناجائز تعلقات کے نتیجے میں یہ بچہ پیدا ہوا تھا۔ تھانے میں اس نے ثمینہ سے اپنی شادی کا تذکرہ کیا، البتہ جب یہ معاملہ عدالت میں چلا گیا تو وہاں عدالت کے رو برو اس نے صرف تعلقات اور شادی کے وعدہ کا ذکر کیا۔ وہاں شہزاد عرف پپو نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اپنے اس بچے کو میں نے محمد علی کے پاس اچھی تربیت کے لئے رکھوایا ہوا ہے۔اب اس بچے کے باپ ہونے کے دو عیسائی شخص دعویدار ہیں : (1)کنوارا شہزاد جو ثمینہ ابراہیم کے ساتہ تعلقات کے نتیجے میں اسے اپنا بیٹا قرار دیتا ہے۔ (2) طارق مسیح جو اسے اپنا اور اپنی بیوی کا بچہ قرار دیتا ہے۔ عدالت نے اس سلسلہ میں ثمینہ کا بیان لئے اور واقعہ کی تفصیلات میں جائے بغیر دونوں سے کہا کہ اگر ڈی این اے ٹیسٹ کرا لیا جائے تو کیا اس کا نتیجہ آپ دونوں مانیں گے؟ دونوں نے اس کا اقرار کرلیا۔ ڈی این اے ٹیسٹ میں یہ بچہ شہزاد سے مشابہ نکل آیا، سو عدالت نے 27/اپریل 2005ء کو ایک فیصلہ کے ذریعے اس کے حوالہ کردیا۔ اس عدالتی فیصلہ کے بارے میں روزنامہ پاکستان میں 10/مئی 2005ء کو ایک مذاکرہ ہوا، جس میں علما کرام کے علاوہ ماہر ڈاکٹرز کو بھی دعوت دی گئی۔ مذاکرہ میں مدعو مہمان ڈاکٹر امینہ نے ڈی این اے ٹیسٹ کی حیثیت کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ”یہ ٹیسٹ اگر صحیح ہوجائے تو اس کے نتائج سو فیصد ہوتے ہیں اورہرآدمی کا ڈی این اے دوسرے سے مختلف ہوتا ہے اورممکن ہے کہ ایک کھرب افراد کے بعد کسی ایک کا دوسرے سے ڈی این اے ملے۔ اس لئے اس پر اعتماد کیا جاسکتا ہے ، البتہ پاکستان میں ڈی این اے ٹیسٹ ہونے کے معیار ی انتظامات موجود نہیں ۔“ زیر بحث مسئلہ کے بارے میں وہاں مختلف اہل علم نے بھی اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیاجو روزنامہ پاکستان میں شائع بھی ہوچکے ہیں ۔ اس فیصلہ پر ہمارا تبصرہ نکات کی صورت میں حسب ِذیل ہے :