کتاب: محدث شمارہ 290 - صفحہ 3
ہیں ۔ اسی نسل اور نسب کے تحفظ سے ایک پورا خاندان وجود میں آتا ہے۔قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کو اپنی صفت اور بہت بڑا انعام بتلایا ہے :
﴿وَهُوَ الَّذِيْ خَلَقَ مِنَ الْمَآءِ بَشَرًا فَجَعَلَه نَسَبًا وَّصِهْرًا﴾ (الفرقان : 54)
”اللہ وہ ہے جس نے انسان کو پانی سے پیدا کیا، پھر اس کا نسب اور سسرالی رشتہ بنایا۔“
اسلام کے پیش نظر چونکہ ایک صالح اور ذمہ دار معاشرہ کی تشکیل ہے، اس لئے اس میں ایسے احکامات کی ایک لمبی تفصیل پائی جاتی ہے۔ سماجی تعلقات اور انسانوں کے باہمی رویے اسلام کا اہم ترین موضوع ہے، نسب اورنسل کی حفاظت سے ہی آپس میں رشتہ داریاں قائم ہوتیں ہیں ، اورجس معاشرے میں رشتہ داریوں کا یہ احترام یا ان کا کوئی نظم نہ پایا جائے وہ معاشرہ گویا جانوروں کا معاشرہ ہے، جس میں نسب کی حفاظت کا کوئی نظام نہیں ۔ قیامت کی سنگینی بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتے ہیں :
﴿ فَإِذَا نُفِخَ فِيْ الصُّوْرِ فَلاَ أَ نْسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَئِذٍ ﴾ (المومنون :101)
”جب قیامت کا صور پھونکا جائے گا تو اس دن آپس کے نسب کی کوئی پروا نہ رہے گی۔“
یہی بات دیگر مقامات پر بھی ایسے آئی ہے کہ روزِقیامت آدمی اپنے ماں باپ، بھائی بہن اور باپ بیٹے سے دور بھاگے گا اور رشتہ داری کی کوئی پروا نہ ہوگی۔ (المعارج : 12 وعبس: 31)
رشتہ داروں سے انسان اپنا دکھ سکھ بانٹ سکتا ہے اور رشتہ داری حقیقتاً خون کے تعلق، یعنی نسب ونسل سے ہی پیدا ہوتی ہے۔ اللہ نے قرابت اور رشتہ داری کو توڑنے سے منع کرتے ہوئے کہا ہے : ﴿ وَاتَّقُوْا اللّٰه الَّذِيْ تَسَاءَ لُوْنَ بِه وَالأرْحَامَ ﴾ (النساء: 1)
”اس اللہ سے ڈرو جس کے نام کا تم واسطہ دیتے ہو اور رشتہ داری کو توڑنے سے ڈرو۔“
رشتہ داری، حقوق وفرائض اور خاندانی نظام کا تمام تر ڈھانچہ نسب اور نسل کے تحفظ پر قائم ہے۔اگر کسی انسان کو اپنے بھائی،بہن کا علم نہیں ہے یا اس میں شک میں مبتلا ہے تو وہ کیونکراس سے قربت کے تعلقات استوار کرسکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسلام میں نسب کو اس قدر زیادہ اہمیت دی گئی ہے کہ شریعت ِاسلامیہ جن پانچ مقاصد کے تحفظ کے گرد گھومتی ہے، ان میں ایک نسل اور نسب کا تحفظ بھی ہے۔اُصولِ فقہ کی مشہور کتاب ’جامع الاصول‘ میں ہے :
”ضروریاتِ دین سے مراد وہ مصالح ہیں جن پر لوگوں کی زندگی کا دارو مدار ہے اور انہی پر