کتاب: محدث شمارہ 290 - صفحہ 29
کتب ِاحادیث میں آیا ہے۔حنفیہ کے موقف کا خلاصہ یہ ہے کہ ومفاد هذا كله أن النسب يثبت للرجل عند الحنفية بثبوت سببه وهو النكاح أو ملك اليمين ولا يرجع عمل القائف إلى شىء من ذلك وإنما يرجع إلى معرفة التخلق من الماء وهو لا يثبت به النسب حتى لو تيقنا من هذا التخلق ولا فراش فإن النسب لا يثبت (المبسوط 17/70، شرح معاني الآثار للطحاوي: 3/116، 180 و 4/161 والموسوعة الفقهية: 34/ 98) ”تمام تر بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ حنفیہ کے نزدیک آدمی کا نسب صرف اس کا سبب ثابت ہونے پر موقوف ہے اور وہ سبب نکاح ہے یا ملک ِیمین۔ جبکہ قیافہ کا کوئی انحصار ان چیزوں پر نہیں ہے بلکہ اس کا انحصار تو نطفہ کے ذریعے مشابہت کو تلاش کرنا ہے لیکن اس سے نسب ثابت نہیں ہوتا،حتیٰ کہ اگرہمیں خلقت میں مشابہت کا یقین بھی حاصل ہوجائے اوراس کا محل جائز بستر نہ ہو تو نسب کسی طرح ثابت نہیں ہوگا۔“ زیر نظر مضمون میں جو موقف ہم نے پیش کیا ہے وہ ان دونوں نقطہ ہائے نظر کے متفقہ نکات پر مبنی ہے۔ حنفیہ کے اس نکتہ پر ہمیں پورا اتفاق ہے کہ نسب نکاح یا ملک یمین کے بغیر ثابت ہونا ممکن نہیں ، البتہ جب ایک مقام پر غلطی یاکوتاہی سے دو افراد ایک جائز عورت میں شریک ہوجائیں ، گویا نسب کی اصل بنیاد قائم ہوجائے تب قیافہ یا قرائن مثلاً ڈی این اے وغیرہ سے فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔ واللّٰھ اعلم پاکستان میں ایسے دو واقعات (1)گذشتہ دنوں ہمارے ہاں ایسے دوکیس عدالتوں میں پیش آئے ہیں جن میں نسب کا مسئلہ زیر بحث آیا۔ ان دونوں کیسوں میں ڈی این اے کے ذریعے نسب کو ثابت کرنے کے مسئلہ پر بھی بحث کی گئی۔ پہلے واقعہ کا خلاصہ یوں ہے کہ نشتر ٹاؤن لاہور کے رہائشی طارق مسیح کے مطابق روحیل 2001ء میں پیدا ہوا اور دو سال تک اس کے گھر میں اس کی بیوی کے پاس رہا ۔ 2003ء میں یہ بچہ اغوا ہوگیا۔ 2005ء میں جب یہ بچہ محمد علی نامی ایک شخص اور اس کی بیوی کے پاس سے برآمد ہوا تو طارق مسیح نے اس کی واپسی کی درخواست تھانے میں جمع کرادی اور یہ دعویٰ کیا کہ یہ بچہ